ایشیاءخبریںمقالات و مضامین

چین کا مشرقِ وسطیٰ میں نیا کردار؛ بحرانوں میں ثالثی اور اقتصادی مفادات کا تحفظ

چین نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک نیا رخ اختیار کیا ہے، جس کے تحت وہ مشرقِ وسطیٰ میں نہ صرف فریقین کے درمیان ثالثی کرتا ہے بلکہ اپنے اقتصادی مفادات کا بھی تحفظ کرتا ہے۔

یہ ملک مختلف گروہوں اور ممالک کے درمیان تنازعات کو سنبھال کر علاقے میں نسبتی استحکام پیدا کرنے اور اپنے تجارتی و توانائی کے اہم راستوں کو بحرانوں کے خطرے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

گزشتہ برسوں میں چین نے اپنی روایتی پالیسی "عدم مداخلت” کو ترک کر کے مشرقِ وسطیٰ میں فعال ثالثی کا کردار اپنایا ہے۔ یہ ملک سفارت کاری اور اقتصادی مفادات کو یکجا کرتے ہوئے تنازعات کو کم کرنے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

چین کی سب سے اہم کوششوں میں سے ایک ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2023 میں ثالثی تھی، جس کے نتیجے میں 7 سالہ سفارتی کشیدگی ختم ہوئی اور چین نے تنگہ ہرمز کے راستے کو محفوظ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

اسی طرح 2024 میں چین نے حماس اور فتح کے درمیان بھی ثالثی کی، جس کے نتیجے میں "پیکنگ معاہدے” کے تحت فلسطینی گروہوں کے اندرونی اختلافات کم ہوئے اور علاقائی کشیدگیوں پر قابو پایا گیا۔

بحیرۂ سرخ کے بحران میں بھی چین نے غیر جانب داری برقرار رکھتے ہوئے زیدی مسلح گروہ حوثیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر فوجی جہازوں پر حملے بند کریں۔ ساتھ ہی چین نے امریکی فوجی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا تاکہ اپنی تجارتی لائنوں کی سلامتی کو یقینی بنائے۔

چین نے شام اور دیگر علاقائی بحرانوں میں بھی عسکری مداخلت سے گریز کرتے ہوئے گفت و شنید اور سیاسی حل پر زور دیا تاکہ فرقہ وارانہ تنازعات میں شدت نہ آئے۔

ماہرین کے مطابق، چین فوجی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ثالثی، اقتصادی ترقی اور سفارت کاری کے ذریعہ عدمِ تحفظ کو قابو میں رکھ کر اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔

چین کی یہ کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ محض ایک غیر جانب دار ثالث نہیں، بلکہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنے اور اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے مختلف بحرانوں میں ثالثی اور کشیدگیوں میں کمی لانے کی کامیابیاں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ ملک مشرقِ وسطیٰ کی پیش رفتوں پر اثر انداز ہونے اور اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کی صلاحیت رکھتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button