طالبان کی کوششیں مخالفین کو خاموش کرنے اور خطے کے ممالک پر دباؤ
طالبان کی دوبارہ افغانستان پر حکومت قائم ہوئے 4 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران یہ گروہ خطے کے ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنے مخالفین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور اپنے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان حکومت نے ہمسایہ ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس گروہ کے سیاسی اور عسکری مخالفین کی حمایت نہ کریں اور ان کی سرگرمیوں کو روکیں۔ اگست 2021 میں سابق افغان حکومت کے سقوط کے بعد متعدد سیاسی کارکنان اور سابق حکومتی عہدیداران ایران، پاکستان، تاجیکستان، متحدہ عرب امارات، ترکی، یورپی ممالک اور امریکہ سمیت مختلف ملکوں میں ہجرت کر گئے۔
طالبان نے ایران، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور ترکی سے درخواست کی ہے کہ وہ ان مخالفین کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں۔
یکم نومبر کو حاجی یوسف وفا، جو طالبان کے صوبہ بلخ کے گورنر ہیں، تاجک حکام کی دعوت پر دوشنبه (تاجکستان کے دارالحکومت) گئے اور متعدد تاجک حکام سے ملاقات کی۔ یہ سفر اس لحاظ سے اہم ہے کہ حاجی یوسف وفا طالبان کے رہنما ملا ہبت اللہ آخوندزادہ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں اور دیگر گورنروں کے مقابلے میں زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
کچھ طالبان نواز میڈیا اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تاجک حکام نے حاجی یوسف وفا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ طالبان مخالفین کی حمایت نہیں کریں گے، تاہم تاجکستان کی حکومت نے ابھی تک کوئی سرکاری موقف ظاہر نہیں کیا ہے۔
طالبان نے پاکستان سے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے مخالفین کی حمایت نہ کرے۔ اس سے قبل طالبان کے قطر میں نمائندے سہیل شاہین نے اعلان کیا تھا کہ دوحہ میں ہونے والے حالیہ فائر بندی معاہدے کے مطابق، اسلام آباد نے طالبان مخالفین کی حمایت نہ کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کے بدلے افغانستان بھی پاکستان مخالف گروہوں کی حمایت نہیں کرے گا۔
ایران نے بھی طالبان مخالف سیاسی شخصیات کو خبردار کیا ہے کہ انہیں صرف اقامت کی اجازت ہے، مگر وہ طالبان کے خلاف کوئی سیاسی سرگرمی انجام نہ دیں۔
ایران کے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے، اس نے اپنی سرزمین پر طالبان مخالفین کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
4 سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود طالبان مخالف گروہ متحدہ موقف اختیار نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے خطے کے ممالک، خصوصاً تاجکستان، اپنے تعلقات کو متوازن رکھنے کے لئے طالبان سے تعامل کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔
اس کے باوجود، جبهه مقاومت ملی (قومی مزاحمتی محاذ) اور جبهه آزادی افغانستان طالبان کے خلاف سرگرم ہیں، لیکن ان کی کارروائیوں سے طالبان کی حکومت کو کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے۔




