افغانستان

4 جمادی الاول؛ یوم وفات علامہ حیدر قلی سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ

4 جمادی الاول؛ یوم وفات علامہ حیدر قلی سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ

معروف شیعہ عالم، فقیہ، محدث، علمِ رجال کے ماہر، ادیب اور ریاضی دان
حیدر قلی سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں حیدر قلی خان قزلباش اور حیدر قلی خان سردار کابلی کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں علومِ معقول و منقول (عقلی و نقلی علوم) کا جامع عالم سمجھا جاتا ہے۔

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانى رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق، وہ اپنے زمانے کے عظیم شیعہ علماء میں شمار ہوتے تھے۔

وہ بروز منگل 18 محرم 1293 ہجری کو چنداول، کابل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار نور محمد خان فوج کے ایک بلند مرتبہ کمانڈر تھے۔ جب حیدر قلی 31 سال کے ہوئے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اُس وقت تک وہ صرف حیدر قلی خان کہلاتے تھے، لیکن والد کی وفات کے بعد انہوں نے اُن کا لقب اختیار کیا اور سردار کابلی کے نام سے مشہور ہوئے۔

لاہور، ہندوستان کی جانب ہجرت

علامہ حیدر قلی 4 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ لاہور (ہندوستان) منتقل ہوئے، اور گیارہ سال کی عمر تک انہوں نے ہندی، سنسکرت، فارسی اور انگریزی زبانیں سیکھ لیں، نیز ریاضیات کی تعلیم حاصل کی اور اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے دینی علوم اور قرآن کریم کی تعلیم بھی مقامی مکتب میں حاصل کی۔

عراق کی جانب ہجرت

سردار کابلی سن 1304 ہجری قمری میں اپنے خاندان کے ساتھ عراق ہجرت کی اور مقدس شہروں میں قیام فرمایا۔ انہوں نے زیادہ تر وقت نجف اور کاظمین میں گزارا، اور 6 سال تک آیۃ اللہ میرزا حسین نوری رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ سید صدرالدین حسن بن ہادی کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت کی۔

کرمانشاہ (ایران) کی جانب ہجرت

علامہ حیدر قلی سردار کابلی سن 1310 ہجری میں کرمانشاہ گئے۔ انہوں نے کئی بار عراق کا سفر کیا اور ایک مرتبہ ہندوستان بھی گئے۔

انہوں نے کچھ عرصہ نجف، کربلا، بغداد، کاظمین، تہران، مشہد اور بمبئی جیسے شہروں میں بسر کیا اور ان شہروں کے علماء و دانشوروں سے ملاقاتیں کیں۔

رحلت

بالآخر منگل، 4 جمادی الاوّل 1372 ہجری کو تقریباً 77 برس کی عمر میں کرمانشاہ میں وفات پائی۔  ان کا جنازہ 5 دن بعد نجفِ اشرف لے جایا گیا اور دوشنبہ 10 جمادی الاوّل 1372 ہجری کو آیۃ اللہ العظمیٰ سید جمال الدین گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانى رحمۃ اللہ علیہ سمیت دیگر علماء اعلام، مراجع تقلید اور مومنین نجف کی موجودگی میں تشییع ہوئی اور والد کے پہلو میں نجف کے قدیم غسّال خانے کے سامنے، وادیِ السلام قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

آثار و تالیفات

سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ نے علمی، دینی اور ادبی موضوعات پر  گراں قدر کتابیں لکھیں۔ بعض محققین نے ان کی تالیفات کی تعداد 70 تک بیان کی ہے۔ ان کے زیادہ تر آثار عربی زبان میں ہیں، جبکہ بعض فارسی میں بھی ہیں۔

ان کی چند مشہور تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:

1. الاربعین فی فضائل امیرالمؤمنین علیہ السلام۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں اہلِ سنت کی روایات سے 40 احادیث فضائلِ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے سلسلہ میں نقل کی ہے۔
مؤلف نے ہر حدیث کے لغوی، ادبی، شعری، تاریخی، رجالی اور حدیثی پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

2. تبصرۃ‌الحر — اس کتاب میں کُر پانی کے وزن اور مساحت کے درمیان حقیقی مطابقت کے مسئلہ پر علمی تحقیق پیش کی ہے۔

3. نظم باب حادی عشر — یہ عربی زبان میں باب حادی عشر کی نظم (شعری شرح) ہے، جس میں مؤلف نے فلسفی و کلامی مباحث کو شعری انداز میں بیان کیا ہے۔
4. شرح دعای صباح
5. درّالنثیر: یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے، اور ہر جلد میں تقریباً دس ہزار اشعار (ابیات) شامل ہیں۔ اس میں حدیث، لغت، نحو، رجال، کلام، شعر، ریاضیات اور دیگر علوم پر گفتگو کی گئی ہے۔
6. ترجمۂ انجیلِ برنابا به فارسی: سردار کابلی نے انجیلِ برنابا کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے اس ترجمے میں عربی اور انگریزی نسخوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا، اور کتاب کے آغاز میں برنابا کی تاریخی شخصیت کے اثبات اور کتاب کے وجود میں آنے کے پس منظر پر ایک مفصل مقدمہ تحریر کیا۔
7. غایۃ‌التعدیل فی معرفۃ الاوزان و المکاییل: یہ کتاب اوزان اور پیمانوں (کیل و وزن) کی وضاحت پر مشتمل ہے۔
8. قبلہ‌شناسی: یہ سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ترین تصنیفات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ ان کی دوسری کتاب تحفۃ‌الاجلہ فی معرفۃ‌القبلہ کا ترجمہ ہے، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ تفصیلی اور جامع ہے۔
9. مناظرات: یہ کتاب سید عبدالحسین شرف‌الدین کی معروف عربی تصنیف المراجعات کا فارسی ترجمہ ہے۔ سردار کابلی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی زندگی کے آخری سال میں کرمانشاہ میں شائع کیا۔

سردار کابلی مختلف علوم و فنون میں گہری مہارت اور وسیع علمی تبحر رکھتے تھے۔ جیسے قبلہ شناسی اور کیمیا گری وغیرہ

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button