اسلامی دنیاافغانستانخبریں

طالبان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود دنیا میں عملی قبولیت کیوں حاصل کر رہے ہیں؟

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کو 4 سال گزر چکے ہیں۔ یہ گروہ اگرچہ اب تک بین الاقوامی سطح پر باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے، لیکن بتدریج اس نے دنیا میں ایک طرح کی عملی یا غیر رسمی مشروعیت حاصل کر لی ہے۔

سیاسی، سیکیورٹی اور ہجرت سے متعلق مختلف عوامل نے ممالک، خاص طور پر یورپی اور علاقائی حکومتوں کو طالبان کے مقابلے میں ایک عملی و حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

سنہ  2021 میں طالبان نے سابق افغان حکومت کو برطرف کیا۔ اگرچہ انہوں نے مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں، عورتوں اور اقلیتوں پر سخت پابندیاں عائد کیں، اس کے باوجود وہ بتدریج عالمی طاقتوں کی جانب سے عملی قبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ریڈیو آزادی کے مطابق، مائیکل کوگلمن (ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن، کینیڈا کے محقق) نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ "دنیا یہ مان چکی ہے کہ طالبان طویل عرصے کے لئے آئے ہیں”،‌ اور اب ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا مجبوری ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، چین، روس اور ایران سمیت 12 سے زیادہ ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے بدستور کھلے رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ یورپی ممالک بھی، مسلسل تنقید اور مذمت کے باوجود، ہجرت کے مسائل کے حل کے لئے طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اس نے طالبان حکام کے ساتھ "ابتدائی نوعیت کے رابطے” شروع کئے ہیں تاکہ حالات کا جائزہ لیا جا سکے اور مسترد شدہ پناہ گزینوں کی واپسی میں سہولت پیدا کی جا سکے۔

لندن کے چتھم ہاؤس ادارے کے محقق حمید حکیمی کے مطابق، یورپ میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ نے حکومتوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے طالبان کے ساتھ غیر رسمی تعاون کریں۔

آسٹریا اور جرمنی ان ابتدائی ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا عمل دوبارہ شروع کیا ہے۔

اسی دوران، حالیہ مہینوں میں بعض یورپی ممالک نے افغان سفارت خانوں کا انتظام سابق حکومت کے سفارت کاروں سے لے کر طالبان کے نمائندوں کے سپرد کر دیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک، یہ اقدام افغانستان کی نئی سیاسی حقیقت کی عملی قبولیت کی علامت ہے۔

الجزیرہ کے مطابق، ملک کے اندر طالبان نے اقتدار مضبوط کرنے کے بعد، مخالفین کو کچل کر اور سماجی آزادیوں کو محدود کر کے کسی بھی بڑے احتجاج یا بغاوت کو روکے رکھا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں اور اس کے بعد قطر و ترکی کی ثالثی سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو طالبان کے لئے ایک اہم سیاسی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف ان کی اندرونی یکجہتی میں اضافہ ہوا بلکہ ان کی بین الاقوامی ساکھ بھی مضبوط ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش کے پھیلاؤ کا خدشہ، افغانستان کی سرحدوں پر استحکام کی ضرورت اور مہاجرین کے بحران کو سنبھالنے کی مجبوری — یہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں نے مختلف حکومتوں کو، انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود، طالبان کو ایک عملی حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر مجبور کیا ہے۔

یوں، دنیا — اگرچہ ناخوش ہے — مگر طالبان کے ساتھ تعامل کو ایک ناگزیر امر کے طور پر تسلیم کر چکی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button