مذہبی سیاحت میں 38 فیصد اضافے کی وجوہات اور زیارت کے سیاحتی نظم و نسق کی جدید ضرورت

دنیا بھر میں زیارتی سفر کے بڑھنے اور لاکھوں زائرین کی مقدس مقامات پر موجودگی کے ساتھ، مذہبی سیاحت (Religious Tourism) آج دنیا کی سب سے بڑی سیاحتی صنعتوں میں سے ایک بن چکی ہے۔
یہ تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زیارت کی سیاحت کی پالیسیوں اور انتظامی ڈھانچوں میں جدید اصلاحات اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے کل سیاحوں میں سے تقریباً 38 فیصد مذہبی زائرین پر مشتمل ہیں۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا مظہر ہیں کہ زیارتی سیاحت نہ صرف معاشی لحاظ سے ایک اہم شعبہ ہے بلکہ سماجی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
یہ صنعت مقامی کاروباروں کو فروغ دیتی ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے اور زیارتی شہروں میں خدماتی انفراسٹرکچر (مثلاً رہائش، نقل و حمل، خوراک، صحت وغیرہ) کو بہتر بناتی ہے۔
زیارتی سیاحت ملکی آمدنی میں اضافہ، ثقافتی صنعتوں کی مضبوطی اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات میں نرمی جیسے مثبت اثرات بھی رکھتی ہے۔
ثقافتی لحاظ سے، زیارت اجتماعی حافظے اور روحانی ورثے کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔
یہ مختلف قوموں اور مذاہب کے افراد کو ایک دوسرے کے مذہبی رسومات اور ثقافتوں سے آشنا کرتی ہے۔
مثلاً اربعینِ حسینی کی پیادہ روی (مشایهٔ اربعین) ایک دینی یکجہتی اور مشترک شناخت کی علامت ہے جو ملتوں کے درمیان روحانی ربط و اتحاد پیدا کرتی ہے۔
زیارت کا ماحول ثقافتی و تعلیمی تبادلے کا ذریعہ بنتا ہے اور دنیا بھر میں امن، بھائی چارے اور دوستی کا پیغام پھیلاتا ہے۔
تاہم، زائرین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ نقل و حمل اور رہائش کے نظام پر شدید دباؤ پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں رہائشی سہولتوں کی کمی اور انتظامی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق، جدید ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے استعمال سے زیارت کے انتظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی زائرین کے سفر کے پیٹرن کا تجزیہ، ہجوم کی پیش گوئی، ٹریفک کے نظم و نسق اور شخصی خدمات کی فراہمی میں مدد دے سکتی ہے، جس سے زیارت کا مجموعی تجربہ زیادہ آرام دہ اور مؤثر ہو جاتا ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ عراق میں اربعینِ حسینی کے موقع پر لاکھوں زائرین کی میزبانی میں جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ عوامی شمولیت، رضاکارانہ خدمات اور دینی تعاون کی ایک بہترین مثال ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس تجربے سے سیکھ کر، اگر زیارتی ڈھانچوں میں ٹیکنالوجی اور جدید منصوبہ بندی شامل کی جائے، تو مذہبی سیاحت کو عالمی سطح پر فروغ دیا جا سکتا ہے اور اس کے معاشی، ثقافتی اور سماجی اثرات کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔




