غزہ جنگ کا باضابطہ اختتام، شرم الشیخ کانفرنس میں جنگ بندی، تعمیرِ نو اور مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی مستقبل پر اتفاق
دنیا کے 20 سے زیادہ ممالک کے رہنماؤں نے شرم الشیخ کانفرنس میں ’’غزہ جامع جنگ بندی معاہدے‘‘ پر دستخط کرکے اس علاقے میں جاری خونریز جنگ کا باضابطہ خاتمہ کر دیا۔
یہ معاہدہ، جو امریکہ، مصر، قطر اور ترکی کی موجودگی میں طے پایا، غزہ پٹی کی تعمیرِ نو اور مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و انسانی تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد رکھتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
تاریخی اجلاس ’’غزہ کے لئے امن‘‘ پیر کی شام مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں امریکہ اور مصر کے صدور کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہوا۔
فارسی نیوز کے مطابق، اس اجلاس میں ’’غزہ جامع جنگ بندی معاہدہ‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویز پر امریکہ اور ثالثی کرنے والے ممالک کے درمیان دستخط کئے گئے، جس کے تحت غزہ پٹی میں کئی سالوں سے جاری جھڑپوں کا باضابطہ خاتمہ ہو گیا اور تعمیرِ نو و علاقائی تعاون کی راہ ہموار ہو گئی۔
الجزیرہ کے مطابق، شرم الشیخ اجلاس کی دستاویز میں خطے میں امن، سلامتی اور مشترکہ ترقی پر زور دیا گیا ہے اور انسانی وقار، رواداری اور سب کے لئے مساوی مواقع کی قدروں کو مستحکم کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔
دستاویز میں اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی توسیع کو خطہ کے جامع وژن کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
ریڈیو فردا نے اطلاع دی ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں مصر، قطر، ترکی، فرانس، جرمنی، اردن اور دیگر ممالک کے رہنما شریک تھے، تاہم اسرائیل، حماس اور ایران کے نمائندے موجود نہیں تھے۔
اس کے باوجود، غیرحاضری کے باوجود سیکیورٹی اور سفارتی چینلز کے ذریعہ پسِ پردہ مذاکرات اور ہم آہنگی کا سلسلہ جاری ہے۔
معاہدے کی شقوں کے مطابق، امریکہ کی نگرانی میں ایک کثیرالملکی فورس کو جنگ بندی پر عمل درآمد، پناہ گزینوں کی واپسی اور انسانی امداد کی ترسیل کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، قاہرہ میں ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں غزہ کی تعمیرِ نو کے منصوبے ترتیب دیے جائیں گے تاکہ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مرحلہ وار بحال کیا جا سکے۔
اجلاس میں شریک رہنماؤں نے اس معاہدے کو ’’مشرقِ وسطیٰ میں امن و بقائے باہمی کے ایک نئے دور کا آغاز‘‘ قرار دیا اور معاہدے کی مکمل عمل آوری اور غزہ کے عوام کے لئے مستقل بین الاقوامی حمایت پر زور دیا۔
رپورٹس کے مطابق، یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کی واپسی بھی اس معاہدے کے فوری اقدامات میں شامل ہیں — ایک ایسا قدم جو امن کے عمل پر عوامی اعتماد کو مضبوط کر سکتا ہے۔