’آئی لو محمدؐ‘ بینر معاملہ: 4500؍ سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج، 265؍ گرفتار: اے پی سی آر
’آئی لو محمدؐ‘ بینر معاملہ: 4500؍ سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج، 265؍ گرفتار: اے پی سی آر
’ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) کی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر تک ہندوستان کے 23 شہروں میں ”عید میلاد النبی“ کے جلوسوں کے دوران ”آئی لو محمدؐ“ کے بینرز لگانے پر تنازع کے مختلف معاملات میں 4505 مسلمانوں پر مقدمے درج کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں 265 مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جمعہ کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں 30 دنوں کے اندر درج کی گئی 45 ایف آئی آر کو دستاویزی شکل دی گئی ہے جس میں پولیس کی یکطرفہ کارروائی اور انتظامی تعصب کا الزام لگایا گیا ہے، خاص طور پر اتر پردیش کے بریلی ضلع میں، جہاں 26 ستمبر کو فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں۔ اے پی سی آر نے بتایا کہ صرف بریلی میں 89 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ 4 ستمبر کو شروع ہوا جب اتر پردیش کے کانپور میں عید میلاد النبی کے جلوس میں شریک افراد نے ”آئی لو محمدؐ“ کے بینرز دکھائے۔ کچھ ہندو گروپوں نے اس پر اعتراض کیا اور اسے ”نئی روایت“ قرار دیا۔ پولیس نے اس کے بعد کارروائی کرتے ہوئے 24 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا اور جلوسوں میں نئے رسم و رواج کو متعارف کرانے سے منع کرنے والے حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا۔ اس کے خلاف، مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا اور اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے کئی اضلاع میں مسلم مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ بریلی میں صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب مقامی عالم دین توقیر رضا خان نے اجازت نہ ملنے پر ایک منصوبہ بند ریلی منسوخ کردی۔ پولیس نے الزام لگایا کہ ان کے بیانات نے ہجوم کو اشتعال دلایا جس کے بعد انہیں 27 ستمبر کو گرفتار کرلیا گیا اور 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔
پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام
اے پی سی آر کی رپورٹ بعنوان ”’آئی لو محمدؐ‘ بریلی میں مظاہرے“ میں حکام پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف لاٹھی چارج، من مانی گرفتاریوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر میں پرامن اجتماعات کو ”غیر قانونی اور پرتشدد ہجوم“ کے طور پر دکھایا گیا اور مسلم برادری کے لیڈران اور بڑی تعداد میں ”نامعلوم افراد“ کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ”اس عمومی نقطہ نظر کے ذریعے ایک پوری برادری کو اپنا آئینی حق استعمال کرنے پر مجرم قرار دیا گیا اور قانونی عمل، قانونی نوٹس، اور گرفتاری کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی۔“ رپورٹ میں اس تنازع کی وجہ سے اقتصادی اور سماجی نتائج کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جس میں مسلم علاقوں میں عوامی نقل و حرکت پر پابندی اور مسلمانوں کو کاروبار میں نقصان اور دھمکیاں شامل ہے۔
اے پی سی آر نے پولیس کے ردعمل کو ”ضرورت سے زیادہ طاقت اور شفافیت کی کمی پر مبنی طرز عمل“ قرار دیا۔ انسانی حقوق کے گروپ نے ریاستی حکومت سے مسلم برادری کے نمائندوں کے ساتھ مکالمہ شروع کرنے اور مبینہ حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کیلئے ایک آزاد کمیٹی قائم کرنے پر زور دیا۔ اس نے قومی انسانی حقوق کمیشن سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ پولیس کے رویے کی تحقیقات کرے اور ان عہدیداروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کرے جن پر ضرورت سے زیادہ یا غیر قانونی طاقت کے استعمال کا الزام ہے۔