محمد بن سلمان کی حکومت میں سعودی عرب میں وعدوں کے برعکس پھانسیوں میں اضافہ
محمد بن سلمان کی جانب سے سزائے موت کو محدود کرنے کے وعدوں کے باوجود، سعودی عرب میں 2025 میں پھانسیوں کی ایک بے مثال لہر دیکھی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین اس روش کو مخالفین کو دبانے اور عوام میں خوف پیدا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
سال کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں 283 سے زیادہ افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ ان سزاؤں کا تعلق زیادہ تر دہشت گردی، غداری اور منشیات کے الزامات سے بتایا گیا ہے۔
یہ تمام اقدامات محمد بن سلمان کے ان وعدوں کے بالکل برعکس ہیں جن میں انہوں نے سزائے موت کو محدود کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق، یہ سزائیں حکومت کے ناقدین اور مخالفین کو خاموش کرانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں۔
امریکی جریدے نیشن اور اکتوبر 2025 کی رپورٹس کے مطابق، ان مقدمات میں عبداللہ الشمری کا کیس نمایاں ہے، جو حکومت کے لئے کام کرتا تھا لیکن بغیر کسی واضح وجہ کے سزائے موت دے دی گئی۔
ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی خصوصی عدالت، جو دہشت گردی کے مقدمات دیکھتی ہے، دراصل سرکوبی اقدامات کو قانونی جواز دینے کا آلہ بن چکی ہے۔
وہ “تعزیری سزا” جس کے تحت الشمری کو پھانسی دی گئی، اسلامی فقہاء کی جانب سے تسلیم شدہ نہیں، اور عام طور پر یہ سزا سیاسی جرائم یا حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارہ فرانس پریس کے مطابق، جلال لبد نامی ایک شیعہ نوجوان، جو پندرہ سال کی عمر میں احتجاجات میں شریک تھا، کو پھانسی دی گئی — یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عدالتی نظام اعترافات حاصل کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیتا ہے۔
اس کے علاوہ، غیر ملکی شہریوں کو بھی منشیات سے متعلق الزامات کے تحت بڑے پیمانے پر پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، سال 2022 میں منشیات کے مقدمات میں سزائے موت پر عارضی پابندی ختم ہونے کے بعد اب تک 262 سے زیادہ افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
یورپی سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ماہرین اور کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ پھانسیاں شیعہ شہریوں، سنی علماء، حکومت مخالف قبائل اور نیوم پروجیکٹ کے ناقدین تک کو شامل کرتی ہیں، جبکہ عدالتی شفافیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی دوران، سعودی حکومت ثقافتی منصوبوں اور تفریحی میلوں کی مالی معاونت کے ذریعہ عالمی برادری کی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پالیسی عوام میں خوف، تنقید کے خاتمے اور ایک ایسے نظام کو جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے جس نے اصلاحات کے وعدے تو کئے تھے، لیکن درحقیقت مخالفین اور ناقدین کو نشانہ بنایا ہے۔