
ایرانی پارلیمنٹ نے قومی کرنسی سے چار صفر ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے؛ یہ وہ تجویز ہے جو سابقہ حکومتوں میں بھی کئی بار پیش کی جا چکی تھی، لیکن ماہرینِ معیشت اسے ایران کی بحران زدہ معیشت کے لئے ایک عارضی اور وقتی مرہم قرار دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران کی پارلیمنٹ کے اتوار کے روز ہونے والے عوامی اجلاس میں، نمائندوں نے 144 ووٹ موافق، 108 ووٹ مخالف اور 3 ووٹ ممتنع کے ساتھ قومی کرنسی سے چار صفر حذف کرنے کے بل کی منظوری دی۔
ایرنا کی رپورٹ کے مطابق، یہ فیصلہ ملک کے مالی و بینکاری قانون میں ترمیم کے بل پر شورای نگہبان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر غور کے بعد کیا گیا۔
ریڈیو فرانس کے مطابق، اس بل کے تحت ایران کا مرکزی بینک پابند ہوگا کہ وہ دو سال کے اندر نئے مالیاتی نظام کی طرف منتقلی کے لیے عملی تیاریوں کا آغاز کرے۔
تاہم، ملک کی کرنسی کی اکائی بدستور "ریال” ہی رہے گی۔
مجلس کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ شمسالدینی حسینی نے اس منصوبے کی طویل تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "یہ بل تین حکومتوں اور تین پارلیمنٹس سے گزر چکا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ چار صفر ختم کرنے سے مہنگائی (افراطِ زر) پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑے گا اور یہ صرف مالیاتی حسابات کو آسان بنانے کا ایک اقدام ہے۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق، ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ چار صفر کا حذف کرنا ایران کی معیشت کے لیے محض ایک عارضی اور وقتی تدبیر ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ملکی معیشت کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے بینکاری اور ٹیکس کے نظام میں بنیادی، علمی اور شفاف اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اسی دوران، بین الاقوامی جریدوں فوربس اور اکانومسٹ نے ایران کی کرنسی کو دنیا کی کمزور ترین کرنسیوں میں شمار کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، مستقل مہنگائی، اقتصادی بدانتظامی اور سیاسی اتار چڑھاؤ ریال کی قدر میں کمی کے اہم اسباب ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چار صفر حذف کرنے سے عوام پر وقتی طور پر نفسیاتی مثبت اثر پڑ سکتا ہے، لیکن جب تک معیشت میں گہرے اور بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں، اس اقدام سے ایران کے مالی استحکام پر کوئی پائیدار اثر نہیں پڑے گا۔