10 ربیع الثانی؛ یوم شہادت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا

اس دن سنہ 201 ہجری میں، مشہور قول کے مطابق، ولیۂ خدا، عابدہ، زاہدہ، کاملہ اور مستورہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بنت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ہوئی۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے والد کے غم اور بھائی کی جدائی کے صدمے کے ساتھ قم میں قیام کے صرف 17 دن بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ آپ کی شہادت سے شہرِ قم غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ غسل و کفن کے بعد آپ کے جنازے کو موسیٰ بن خزرج کے باغ کہ جہاں آج روضہ مبارک ہے، لے جایا گیا۔ اس وقت دو نقاب پوش سوار شہر کے باہر سے آئے، انہوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور پھر سرداب میں جا کر دفن کردیا اور واپس چلے گئے۔ کوئی بھی انہیں پہچان نہ سکا۔
موسیٰ بن خزرج نے اپنا یہ باغ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لئے وقف کردیا اور بوریا اور حصیر سے قبرِ مطہر پر سائبان کیا۔ یہ سائبان اسی طرح باقی رہا، یہاں تک کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر گرامی جناب زینب نے آپ کے مزار پر ایک گنبد تعمیر کروایا۔ اس کے بعد ائمہ علیہم السلام کی چند دختران بھی یہیں پر دفن ہوئیں۔ جب ام محمد دختر موسیٰ بن محمد بن علی الرضا علیہ السلام کا انتقال ہوا تو انہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی بہن میمُونہ کا بھی انتقال ہوا، انہیں بھی ام محمد کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان دونوں قبور پر ایک دوسرا گنبد بنایا گیا، اس طرح حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا، ام محمد اور میمونہ کی قبور پر دو گنبد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے موجود تھے۔
حضرات معصومین علیہم السلام کی دختران کے علاوہ دو کنیزیں بھی وہاں دفن ہیں۔ ناصرالدین شاہ کے دور میں جب روضۂ مطہر کی مرمت کی گئی تو ایک سرداب کی جانب ایک راستہ کھلا اور چند مومنہ اور صالحہ خواتین اس میں داخل ہوئیں۔ وہاں انہوں نے میمونہ اور دو کنیزوں کے پاکیزہ پیکر ہزار سال بعد بھی تروتازہ حالت میں دیکھے۔ یہ سرداب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے سرداب کے پہلو میں واقع ہے۔
مرحوم نمازی نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات 12 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری نقل کی ہے، جبکہ شیخ حر عاملی رحمہ اللہ سے منسوب قول کے مطابق آپ کی وفات 8 شعبان سنہ 201 ہجری میں ہوئی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "قم چھوٹا کوفہ ہے، اور بہشت کے 8 دروازے ہیں جن میں سے 3 قم کی طرف سے ہیں۔ اس شہر میں میری اولاد میں سے ایک خاتون کا انتقال ہوگا جس کا نام فاطمہ ہے، وہ موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی دختر ہوں گی، اور ان کی شفاعت سے میرے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔”