6 ربیع الثانی؛ مرگ ہشام بن عبدالملک
شیعہ مزاحمتی ثقافت کو نہ سمجھنے والے حاکم کا انجام
مآخذ اور تحریری منابع جیسے جلد پنجم تاریخ طبری، جلد دوم تاریخ دمشق ابن عساکر، فیض العلام فی عمل الشهور و وقایع الایام، تَتمّةُ الْمُنْتَهی فی وَقایع اَیّام الْخُلَفاء شیخ عباس قمی اور تقویم شیعہ شیخ عبدالحسین نیشابوری کے مطابق، ماہ ربیع الثانی کی چھٹی تاریخ ہشام بن عبدالملک کی موت کا دن ہے۔
وہ دسواں اموی حاکم تھا، جو 6 ربیع الثانی سنہ 125 ہجری میں رصافہ شام میں واصل جہنم ہوا۔ تاریخی روایات کے مطابق وہ سخت مزاج، بدخلق، بخیل اور حریص تھا۔ وہی زید بن علی بن حسینؑ کی شہادت کا سبب بنا اور امام باقرؑ و امام صادقؑ کو شام بلوا کر ان کی شان میں گستاخی کی اور بالآخر امام باقر العلومؑ کو شہید کیا۔
منابع کے مطابق، اس نے 19 سال 9 ماہ اور 10 دن خلافت کی اور وفات کے وقت عمر 53 برس تھی۔ دور سفاح میں جب بنو امیہ کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوا تو حکم دیا گیا کہ خلفائے بنو امیہ اور ان کے مشہور افراد کی قبروں کو کھود کر ان کی باقیات جلا دی جائیں۔
منقول ہے کہ ولید بن عبدالملک کی قبر میں کچھ باقی نہ تھا اور عبدالملک کی قبر میں صرف کھوپڑی کا حصہ ملا۔ لیکن جب ہشام کی قبر کھودی گئی تو اس کا جسم اب بھی سلامت تھا۔ چنانچہ چونکہ اس نے حضرت زید بن علی بن الحسینؑ کی والدہ پر بہتان لگایا تھا، اس کے جنازے پر 80 کوڑے بطور حد قذف مارے گئے اور پھر اسے جلا کر اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی۔ یہ خدا کا قانون ہے کہ ظالم اپنے ظلم کی سزا ضرور پاتا ہے، کبھی کسی دوسرے ظالم کے ہاتھوں، کبھی دوسرے اسباب کے ذریعے۔ ہشام سے پہلے کئی شیعی قیام ہوچکے تھے اور وہ ان کے انجام سے باخبر تھا، مگر وہ شیعیانِ اہل بیتؑ کی مزاحمتی ثقافت کو نہ سمجھ سکا۔
ہشام بطور امیرالحاج
ہشام بن عبدالملک اپنے بھائی ولید بن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں ایک سال شامیوں کا امیرالحاج تھا۔ اس سفر میں وہ حجر الاسود تک پہنچ کر اسے بوسہ دینا چاہتا تھا لیکن حاجیوں کے ہجوم نے اسے روک دیا۔ چنانچہ اس کے لئے ایک جگہ مخصوص کی گئی جہاں بیٹھ کر وہ حاجیوں کو دیکھنے لگا۔
اسی وقت امام زین العابدینؑ تشریف لائے اور طواف کعبہ کرنے لگے۔ جب امام سجادؑ حجر الاسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے راستہ کھول دیا اور امامؑ نہایت عظمت و جلال کے ساتھ حجر الاسود کو بوسہ دیا۔ ایک شامی نے ہشام سے پوچھا: یہ کون ہیں جنہیں لوگ اس قدر عزت دیتے ہیں؟ ہشام نے، باوجود جاننے کے، کہا: "میں انہیں نہیں جانتا” تاکہ شامیوں کا دل امامؑ کی طرف مائل نہ ہو۔
یہ بات سن کر شاعر فرزدق کھڑا ہوا اور کہا: "میں انہیں پہچانتا ہوں” اور پھر فی البدیہہ اپنی مشہور قصیدہ میں امام سجادؑ کی شان میں اشعار پڑھے۔
ہشام اور قیام زید
زید، فرزند امام سجادؑ، سنہ 121 ہجری میں کوفہ میں شہید ہوئے۔ ان کا خروج یا تو محرم یا صفر کے آغاز میں ہوا تھا اور شہادت کے بعد دوسرے صفر کو دفن کئے گئے۔ لیکن روایت ہے کہ 19 ربیع الاول کو قبر کھود کر ان کے جسد کو نکالا گیا اور درخت پر لٹکا دیا گیا۔
زید کا قیام تاریخ اور شیعی مزاحمتی ثقافت کا روشن باب ہے۔ ان کا نعرہ "یا منصور امت” تھا، جو مختار ثقفی کے قیام کا بھی شعار تھا۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں نقل کیا ہے کہ ان کا قیام پہلے ہونا تھا مگر دو ساتھیوں کی ناگہانی موت کے سبب خوف تھا کہ یہ منصوبہ قبل از وقت ظاہر ہوجائے، اس لئے مؤخر کیا گیا۔
کوفہ کے حاکم نے قیام کی خبر پا کر مسجد کوفہ میں لوگوں کو جمع کر کے دروازے بند کر دیے تاکہ وہ زید کے لشکر میں شامل نہ ہوسکیں۔ چنانچہ پچاس ہزار بیعت کنندگان میں سے صرف 280 یا 300 افراد زید کے ساتھ رہ گئے اور وہ بھی اپنے جد امام حسینؑ کی طرح قلتِ یاران کے ساتھ شہید ہوئے۔ مگر خدا نے اپنی سنت کے مطابق ان کا انتقام لیا۔
زید کی قلتِ یاران قیام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنی۔ بعد میں کچھ نااہل افراد کی وجہ سے زیدیہ کا ایک گروہ وجود میں آیا، مگر علمائے امامیہ نے زید کی شخصیت کا ہمیشہ احترام کیا اور انہوں نے کبھی دعویٰ امامت نہیں کیا۔ وہ اپنے والد امام سجادؑ کی صحیفہ سجادیہ کے کاتب و راوی تھے اور ان سے 61 روایات بھی نقل کیں۔ اس کے علاوہ ایک کتاب مسئلہ امامت پر اور ایک فقہی کتاب بھی ان سے منسوب ہے۔
محدثین اور علمائے رجال نے ان کے فقہی مقام کو معتبر قرار دیا ہے۔ روایت ہے کہ وہ اپنے بھائی امام محمد باقرؑ کا احترام کرتے اور ان سے علم حاصل کرتے۔ اسی طرح امام جعفر صادقؑ کے بھی شاگرد رہے۔ اس طرح وہ تین ائمہ کے شاگرد تھے۔