اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس متنازعہ تقاریر اور تکنیکی رکاوٹوں کے ساتھ شروع
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس متنازعہ تقاریر اور تکنیکی رکاوٹوں کے ساتھ شروع
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کا آغاز دنیا کے رہنماؤں کی متنازعہ تقاریر اور صوتی نظام میں خرابی کے ساتھ ہوا۔
وہاں انڈونیشیا کے صدر کا مائیک اچانک بند ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی تند و تیز تقریر اور غزہ پر گوترش کی تنبیہ نے اجلاس کا ماحول کشیدہ بنا دیا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کا آغاز درجنوں ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں ہوا اور پہلے ہی دن یہ اجلاس غیرمعمولی تقاریر اور کم سابقہ حاشیوں کا مرکز بن گیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے افتتاحی خطاب میں غزہ کے انسانی بحران کو سب سے بڑا عالمی چیلنج قرار دیا اور عوامی مصائب ختم کرنے کے لئے فوری اقدام کا مطالبہ کیا۔
آنتونیو گوترش نے اپنی تقریر میں کہا: "غزہ میں وحشت اپنے تیسرے سال کے قریب پہنچ رہی ہے اور ہلاکتوں و تباہی کا پیمانہ ہر دوسرے تنازع سے بڑھ گیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے اور پائیدار حل صرف دو ریاستی فارمولے کے نفاذ میں ہے۔
سکریٹری جنرل کے بعد برازیل، انڈونیشیا، ترکی، قطر، فرانس، جنوبی افریقہ اور عراق سمیت کئی ملکوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔
تاہم سب سے زیادہ توجہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تند و تیز تقریر نے حاصل کی۔
انہوں نے اشتعال انگیز لہجے میں کہا: "آپ کے ممالک جہنم کی طرف جا رہے ہیں” اور اقوام متحدہ پر الزام لگایا کہ "یہ مغربی ممالک پر حملے میں مدد دے رہا ہے۔”
ٹرمپ نے مزید کہا کہ "دہشتگردوں اور منشیات فروشوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا” اور کھلے بارڈر کی پالیسی کو "کھلی ناکامی” قرار دیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اپنی پچھلی صدارت میں انہوں نے "7 لامحدود جنگوں کو ختم کیا۔”
تاہم خبرساز تقاریر ہی نہیں بلکہ تکنیکی مسائل بھی اجلاس کی سرخیوں کا حصہ بن گئے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی تقریر کے دوران اچانک مائیک بند ہوگیا اور وہ کچھ لمحوں تک اپنی بات جاری نہ رکھ سکے۔ اس پر ترک وفد نے ردعمل ظاہر کیا اور اردوغان کو اپنی تقریر مختصر کرنی پڑی۔
اسی طرح انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو کو بھی یہی مسئلہ پیش آیا اور کچھ وقت کے لئے ہال کا صوتی نظام بالکل بند ہوگیا۔
اقوام متحدہ کے تکنیکی عملے نے ان واقعات کو "فنی خرابی” قرار دیا، لیکن بعض میڈیا اداروں نے سوال اٹھایا کہ آیا یہ محض تکنیکی مسئلہ تھا یا اس میں کوئی پوشیدہ سیاسی پیغام بھی شامل تھا۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اس سال کا اجلاس نہ صرف کھلے اختلافات اور متنازعہ تقاریر کی وجہ سے توجہ کا مرکز ہے بلکہ غیرمتوقع تکنیکی حاشیوں کی وجہ سے بھی عالمی رائے عامہ میں موضوع بحث بن گیا ہے۔
اس کشیدہ آغاز نے ظاہر کر دیا کہ اس سال کی جنرل اسمبلی بھی پچھلے برسوں کی طرح عالمی طاقتوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان سنگین اختلافات کا میدان بنے گی؛ ایسے اختلافات جو جنگ و امن سے لے کر ہجرت، توانائی اور ماحولیاتی تبدیلی تک کے مسائل کو اپنے دائرے میں لئے ہوئے ہیں۔