اقوام متحدہ بحرانوں کے سائے میں؛ جنرل اسمبلی جنگوں اور طاقتوں کی رقابت کے دباؤ میں
اقوام متحدہ بحرانوں کے سائے میں؛ جنرل اسمبلی جنگوں اور طاقتوں کی رقابت کے دباؤ میں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آغاز سے قبل اس عالمی ادارے کا ماحول بھاری اور پریشانیوں سے بھرا ہوا بیان کیا جا رہا ہے۔
وہاں جہاں جنگیں، بجٹ میں کمی اور طاقتوں کی رقابت نے اس ادارے کے اصل کردار کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
انتونیو گوترش، سکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے آئندہ جنرل اسمبلی کو ’’سفارت کاری کا عالمی کپ‘‘ قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ رہنماؤں کے درمیان 150 سے زیادہ دو طرفہ ملاقاتوں کا انتظام کیا گیا ہے۔
تاہم، ڈوئچے ویلے فارسی کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملاقاتوں کی کثرت، اقوام متحدہ کی کم ہوتی حیثیت کو نہیں چھپا سکتی۔
جرمن ٹیلی وژن کی رپورٹ کے مطابق، تھنک ٹینک ’’گروپ آف کرائسس‘‘ کے رچرڈ گوان نے زور دیا ہے کہ اس عالمی ادارے کی کمزوری کی اصل وجہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والی تین بڑی طاقتوں کا رویہ ہے۔
ان کے بقول، انہی ممالک کی کارکردگی کے سبب متعدد بین الاقوامی بحران حل طلب رہ گئے ہیں۔
اسی دوران، ادارے کے بجٹ میں کمی کا مسئلہ بھی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔
رچرڈ گوان نے اس رجحان کو ’’ٹرمپ شاک‘‘ قرار دیتے ہوئے یاد دلایا کہ امریکی حکومت نے ابتدا ہی سے اقوام متحدہ کے اداروں کی مالی معاونت کا بڑا حصہ روک دیا تھا۔
اس اقدام نے ادارے کی مالیاتی ساخت اور عملی سرگرمیوں پر بھاری دباؤ ڈالا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ منگل 23 ستمبر کو امریکی صدر کی تقریر اجلاس کا نقطۂ عروج ہوگی۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق، ٹرمپ جنرل اسمبلی میں خود کو نوبل امن انعام کے مستحق کے طور پر پیش کریں گے اور اپنی موجودگی کو سیاسی طاقت کے مظاہرے کے طور پر استعمال کریں گے۔
ادھر مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے محمود عباس کے نیویارک سفر میں بھی رکاوٹ ڈالی اور انہیں ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ اقدام اس حساس موقع پر ان کی غیرحاضری کا باعث بنا، جب چند مغربی ممالک فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
ناظرین کے بقول، اس سال کی جنرل اسمبلی کا ماحول طاقتوں کی رقابت، عالمی بحرانوں اور اس ادارے کی کارکردگی پر شکوک کا ایک امتزاج ہے؛ وہ ادارہ جو کبھی عالمی امن اور سلامتی کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا تھا۔