تاریخ اسلاممقالات و مضامین

25 ربیع الاوّل ؛ یوم صلح امام حسن مجتبی علیه السلام

عدم فہمی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ امام حسن علیہ السلام کی صلح ہے ۔ جو کل بھی بہت سوں کو ہضم نہ ہوا اور آج بھی یہ مسئلہ اکثر کے لئے قابل فہم نہیں ۔
عوام تو عوام خود خواص کے لئے یہ مسئلہ قابل حل نہ تھا اور کتنوں نے خود امام عالی مقام سے ہی پوچھ لیا کہ آپ نے صلح کیوں کی؟ !
آپؑ نے فرمایا: اگر رسول اللہ صلی الله علیه و آله کوئی حکم دیں تو مانو گے؟ انھوں نے کہا: ہاں تو امام علیه السلام نے فرمایا : رسول اللہ صلی الله علیه و آله نے فرمایا : ’’حسن و حسین ( علیهماالسلام ) امام ہیں چاہے صلح کریں یا جنگ کریں ‘‘ یہ سننا تھا کہ سوال کرنے والے خاموش ہو گئے۔
حقیقت ہے اگر ہم اپنے عقائد پر توجہ رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کی طرح ہم پر رسول و ائمہ کی اطاعت بلا قید و شرط ہم پر واجب کی ہے نہ فقط امام حسن علیہ السلام بلکہ کسی بھی معصوم کے سلسلہ میں کبھی ہمارے ذہن میں کوئی شبہہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔
لیکن آخر کیوں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلا م نے صلح فرمائی ، صلح کے اسباب و وجوہات کیا تھے؟
تو تاریخی کتب سے چند باتیں سامنے آتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے کیوں صلح فرمائی۔جن کی جانب ہم صرف اشارہ کر رہے ہیں:
دین کی بقا، اپنی اور شیعیان آل محمدؐ کا جانی تحفظ، عوامی حمایت کا فقدان جیسا خود امام علیہ السلام نے اس جانب اشارہ فرمایا، لوگوں کا جنگ سے اُکتا جانا، لشکر کی بے وفائی، لشکر کے کمانڈروں کی خیانتیں، جنگ و خونریزی سے بچنا، خوارج کے خطرات کو روکنا۔ وغیرہ۔۔۔
مذکورہ وجوہات کے سبب امام حسن علیہ السلام نے صلح فرمائی لیکن ایسے موقع پر بھی دشمن اتنا خوف زدہ تھا کہ اس نے آپ کے ہی شرائط پر صلح کی اگر چہ بعد میں سب کا انکار کیا اور کسی بھی شرط پر عمل نہیں کیا۔
صلح کے شرائط جو آپ نےقرار دئیے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
حاکم شام کتاب خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ پر عمل کرے گا۔
حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام پر سب و شتم بند کیا جائے۔
حاکم شام اپنے بعد کے لئے کسی کو جانشین معین نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد امام حسن علیہ السلام امت کے امیر ہوں گے۔ اگر وہ نہ ہوئے تو امام حسین علیہ السلام امت رسول کے امیر ہوں گے۔ (اس شرط کے مطابق یزید کو مطالبہ بیعت کا حق نہ تھا بلکہ اسے خود امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے تھی )
ہر انسان ہر جگہ امن و امان سے رہے گا۔
حاکم شام امام علیہ السلام کے اصحاب و انصار کو مکمل تحفظ دے گا۔
وغیرہ ۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے بعض ذہنوں میں یہ شبہہ پیدا ہو کہ آخر اس صلح کا کیا نتیجہ ہوا کہ جسکی کسی بھی شرط پر عمل نہیں ہوا؟ تو جیسا کہ ابتدائے کلام میں ذکر کیا گیا کہ اس ڈھیل سے حاکم شام کی حقیقت لوگوں پر اور واضح ہو گئی ۔ اگر چہ اس کے سیاہ کارناموں سے کتنی بے گناہ جانیں چلی گئیں لیکن صاحبان بصیرت کے لئےاس کی حقیقت کاملا آشکار ہو گئی۔
یاد رہے ائمہ معصومین علیہم السلام اللہ کی جانب سے اس کی مخلوقات پر حجت اور امام و رہبر ہیں جو کسی بھی صورت قابل عزل و نصب نہیں لیکن دنیوی حکومت لوگوں کی حمایت سے ہی قائم ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا امام حسن علیہ السلام حکم خدا و نص نبوی سے امام و رہبر تھے کوئی مانے یا نہ مانے۔ لیکن جب لوگوں نے برحق امام کی اطاعت و حمایت نہیں کی تو انھوں نے اسلام کی بقا کی خاطر صلح فرمائی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button