ایرانتاریخ اسلاممقدس مقامات اور روضے

23 ربیع الاوّل ؛ حرم اہل بیت علیهم السلام قم میں کریمہ اہل بیت علیهم السلام حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد

شب معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سفر معراج پر رواں دواں تھے کہ راستے میں آپ کی نظر زمین کے ایک حصے پر پڑی جہاں شیطان لوگوں کو صراط مستقیم سے بہکا رہا تھا تو آپ نے جناب جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہاں کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ آپ کے اہل بیت علیهم السلام سے محبت کرنے والوں کا مرکز ہے اور یہ شیطان ہے جو ان کو بہکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضور نے بے ساختہ شیطان سے فرمایا: "قم” یعنی اٹھ جا، چلا جا۔ آب وحی سے دھلی ہوئی زبان پیغمبر سے نکلا ہوا لفظ "قم” اس شہر کا نام قرار پایا اور یہی شہر قم کی وجہ تسمیہ ہے۔

قم پہلی صدی ہجری سے شیعہ نشین شہر رہا ہے، یہاں آل محمد علیہم السلام کے شیعہ رہتے آئے ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خاص نظر کرم اس شہر اور یہاں کے رہنے والوں پر رہی ہے۔‌ جیسا کہ صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرمایا: "قم ہم اہل بیت علیهم السلام کا حرم ہے۔”
کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت سے برسوں پہلے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "میری بیٹی! فاطمہ بنت موسی قم میں رحلت فرمائیں گی اور ان کی شفاعت سے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔”

یہ وہی بی بی ہیں جن کے سلسلہ میں ان کے والد یعنی وصی رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: "ان کا باپ ان پر فدا ہو جائے۔”

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: "بہشت کے 8 دروازے ہیں، جن میں سے ایک دروازہ اہل قم کے لئے کھلتا ہے۔”

بے شک شہر قم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد سے قبل بھی محترم اور مکرم تھا لیکن اس کو وہ عظمت اور رونق حاصل نہ تھی جو آپ کے پر خیر و برکت وجود سے حاصل ہوئی۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد سے اس شہر کو دینی، مذہبی، روحانی، علمی، ثقافتی، سیاسی اور اجتماعی بلکہ ہر جہت سے قابل قدر امتیاز حاصل ہوا کہ آج یہ شہر، شہر علم و اجتہاد ہے۔ اگرچہ جغرافیائی لحاظ سے یہ شہر بہت بڑا نہیں ہے لیکن محل دین اور مرکز مذہب ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا 23 ربیع الاول سن 201 ہجری کو قم تشریف لائیں اور یہاں اپنی بابرکت اور پاکیزہ زندگی کے صرف 17 دن بسر کر کے 10 ربیع الثانی کو شہید ہو گئیں اور یہیں دفن ہوئیں۔ لیکن آپ کے وجود مبارک اور روضہ مطہر کے سبب اس شہر کو قابل قدر امتیازات حاصل ہوئے۔ جن میں امام زادگان کی آمد، اہل ایمان کی توجہ کا مرکز بنا کہ کثرت سے سادات و مومنین یہاں ہجرت کی، علماء و فقہاء کی سکونت نے دین و مذہب کو استحکام بخشا وغیرہ سر فہرست ہیں اور سب سے عظیم و نمایاں فائدہ حوزہ علمیہ کا قیام ہے کہ تیسری صدی ہجری کی ابتدا میں یہاں حوزہ علمیہ قائم ہوا، البتہ درمیان میں کچھ وجوہات کے سبب حوزہ علمیہ میں رونق کم ہوئی تو آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ دوبارہ اس کی رونق کو واپس لائے کہ آج الحمدللہ ولہ الشکر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی برکتوں سے علماء، فقہاء، محدثین، متکلمین، مفسرین وغیرہ کا مرکز ہے۔ نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے دیگر 100 سے زیادہ ممالک کے تشنگان علوم اہل بیت علیہم السلام یہاں سیراب ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تھا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مشرق و مغرب دنیا میں علم قم سے نشر ہوگا، یہاں تک کہ یہ شہر دوسرے شہروں کے لئے نمونہ عمل ہوگا، زمین پر کوئی ایسا شخص نہ ہوگا کہ جس کو قم سے علمی اور دینی فائدہ حاصل نہ ہو، یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہو جائے گا۔ (بحارالانوار، جلد 60، صفحہ 213)
اس کے علاوہ بے انتہاء برکتیں اور فوائد حاصل ہوئے جو اہل علم و نظر سے پوشیدہ نہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button