شیعہ مرجعیت

23 ربیع الاول؛ یوم وفات آیۃ اللہ سید امجد حسین رضوی سونوی رحمۃ اللہ علیه

23 ربیع الاول؛ یوم وفات آیۃ اللہ سید امجد حسین رضوی سونوی رحمۃ اللہ علیه

مولانا سید امجد حسین صاحب ابن مولانا سید منور علی الہ آبادی جناب باقر العلوم اور قدوۃ العلماء کے ہم عصروں میں مسلم الثبوت مجتہد تھے۔ آپ قصبہ رسول پور سونی الہ آباد کے رہنے والے تھے جو اتر سوئیا اور کراری کے درمیان واقع ہے ۔ آپ کی ولادت 1280 ھ میں ہوئی ۔

آپ کے دادا انتہائی فرشتہ خصال عالم دین ،متقی و پرہیز گار صاحب دستار اور جید عالم دین تھے جن کا نام سید محمود علی رضوی تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیمات اپنے والد ماجد سے حاصل کی ۔ پھر لکھنو تشریف لے گئے جہاں مولانا محمد حسین صاحب قبلہ ، مفتی محمد عباس صاحب قبلہ ، مولانا سید احمد صاحب قبلہ ، محمد آبادی اور تاج العلماء مولانا محمد علی صاحب طاب ثراہم سے کسب فیض کر کے اجازات اجتہاد و روایت حاصل کئے ۔

سنہ 1305 ھ میں آپ نے تصانیف و تالیف اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور الہ آباد بحیثیت امام جمعہ و جماعت تشریف لائے ۔

سنہ 1308 ھ میں آپ عراق گئے اور وہاں تقریبا 10 سال قیام کرنے کے بعد 16 ربیع الثانی 1319 ھ کو ہندوستان واپس تشریف لائے ۔ عراق میں آپ نے آیات عظام شیخ محمد طٰہ نجف، محمد علی رشتی اور سید محمد کاظم یزدی طباطبائی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ان سے اجازات اجتہاد و روایت حاصل کئے ۔

شیخ محمد طہ نجف نے اپنے اجازہ میں لکھا تھا کہ :

حصلت له ملكة الاجتهاد و قوة الاستنباط فهو في المجتهدين الاعلام الذي يجب على اهل تلك الاطراف اتباع قوله و ارشاده و راد علیه راد على الله

آپ کا زہد و تقوی ضرب المثل تھا ۔ کسی غیر شیعہ کا تیار کیا ہوا کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ اپنے کھانے کا سامان ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔

آپ نے سنہ 1327 ھ میں چک الہ آباد میں ایک مدرسہ قائم کیا ۔ آپ آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے اجلاس نہم کے صدر منتخب ہوئے تھے اور آپ نے اپنی طرف سے جناب راجہ سید ابو جعفر صاحب بالقابہ کو اپنا نائب بنایا تھا جنھوں نے فرائض صدارت انجام دیئے ۔

ایک روز ایک بندہ مومن کراری جاتے ہوئے سونی میں آپ کی دست بوسی کو حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ایک کفن پر کچھ لکھ رہے ہیں ۔ اس مومن نے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں تو فرمایا کہ کل اسی وقت میری تجہیز و تکفین ہوگی اس کا انتظام کر رہا ہوں ۔ اور وہی ہوا ، آپ کی تاریخ وفات 23 ربیع الاول 1350 ھ ہے ۔

علمی آثار

اردو فارسی رسالہ عملیہ

صفائح الابریز في شرح الوجیز (یہ وجیزہ شیخ بہائی کی مختصر شرح عربی میں ہے جو لکھنو میں 1305ھ میں چھپی تھی)

وجیزہ ہی کی ایک مطول شرح لکھی تھی جوتلف ہوگئی

تعليق على شرح اللمعة (غیر مطبوعہ ) سنا ہے کہ یہ مخطوطہ سلطان المدارس کے کتب خانہ میں ہے۔ اصلاح ( کھجوا) جلد 30 نمبر 1 کے مطابق یہ تعلیقہ کتاب الطہارۃ سے کتاب الدیات تک مکمل ہے اور اس کے آخر میں مجتہدین عراق کے وہ اجازات بھی نقل کئے ہیں جو ان حضرات نے مولانا ممدوح کو عطا فرمائے تھے۔

زبدۃ المعارف ( اصول دین کے بیان میں)

وسيلة النجاۃ فی احکام الصلوۃ (اردو مطبوعہ)

خلاصة الطاعۃ در احکام جمعه و جماعت (اردو)

وفات
آپ کی وفات 23 ربیع الاول سنہ 1350ھ مطابق 8 اگست 1931 عیسوی میں واقع ہوئی ۔

اسی سال آپ نے اپنے مقبرہ کی تعمیر خود فرمای تھی جس میں ہر شب تلاوت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں اسی سال کوچ کرنا ہے۔

آپ کی خبر انتقال جب نشر ہوئی تو دور دراز سے علماء و ذاکرین و فضلاء و عوام جوک در جوک تشریف لانے لگے ، شہر اجتہاد لکھنو سے سرکار ناصر الملت، سرکار نجم العلماء، آپ کے شاگرد خاص سرکار سعیدالملت ،علامہ ابن حسن نونہروی ، و دیگر مجتہدین تشریف لائے ۔ نماز جنازہ سرکار ناصر الملت و الدین آیۃ اللہ العظمی سید ناصر حسین موسوی لکھنوی قدس سرہ نے پڑھائی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button