صحت اور زندگی

دنیا میں پہلی بار خوراک کی کمی کے بغیر بچے غذائی قلت کا شکار: یونیسف

دنیا میں پہلی بار خوراک کی کمی کے بغیر بچے غذائی قلت کا شکار: یونیسف

اقوام متحدہ (یو این) کے بچوں کی صحت سے متعلق ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ پہلی بار دنیا بھر میں 5 سے 19 سال کے بچوں اور نوجوانوں میں موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ خوراک کی کمی کے بغیر اس عمر کے افراد میں غذائی کمی (malnutrition) پیدا ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2025 تک ہر 10 میں سے ایک بچہ یا نوجوان موٹاپے کا شکار تھا، اس کی بڑی وجہ غیر صحت مند اور غیر اخلاقی انداز میں فروخت ہونے والی جنک فوڈز اور الٹرا پراسیسڈ کھانے ہیں جو پھل، سبزیوں اور صحت مند غذاؤں کی جگہ لے رہی ہیں۔

جنگ فوڈز اور الٹرا پراسیسڈ کھانوں میں برگر، کولڈ ڈرنکس، اسنیکس، چپس، بار بی کیو، آئیس کریم اور اسی طرح کی دوسری خوراکیں شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ایجنسی پریس فرانس‘ (اے ایف پی) کے مطابق یونیسف کی سربراہ کیتھرین رسل نے کہا کہ آج مالنیوٹریشن صرف کم وزن بچوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ دماغی نشوونما اور ذہنی صحت پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہا ہے اور جنک فوڈز استعمال کرنے والے افراد بھی اس کا شکار بن رہے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2000 سے 2022 کے دوران دنیا بھر میں کم وزن بچوں کی شرح 13 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد پر آگئی لیکن اسی عرصے میں موٹاپے کے شکار بچوں کی تعداد دوگنی ہوگئی جو 19 کروڑ سے بڑھ کر تقریبا 40 کروڑ تک پہنچ گئی، جن میں سے 16 کروڑ 30 لاکھ بچے اور نوجوان شدید موٹاپے کا شکار ہیں۔

یونیسف کے مطابق یہ مسئلہ والدین یا بچوں کے فیصلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ کاروباری پالیسیوں کا نتیجہ ہے، خاص طور پر اسکولوں میں بچوں کو کولڈ ڈرنکس اور نمکین اسنیکس جیسی غیر صحت مند اشیا مسلسل بیچی جارہی ہیں، جن سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں موٹاپا پہلے سے زیادہ ہے، مثلاً امریکا میں 21 فیصد اور چلی میں 27 فیصد بچے موٹے ہیں لیکن اب ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کچھ چھوٹے جزائر میں یہ شرح 38 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

یونیسیف نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر صحت بخش کھانوں کی تشہیر پر پابندی، میٹھے مشروبات اور غیر صحت مند کھانوں پر ٹیکس لگانے جب کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیاں نافذ کریں تاکہ بچوں کی صحت کو تحفظ مل سکے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button