ہندوستان

هندوستان: یوپی میں 7؍مسلمانوں نے حراستی تشدد اور ”تبدیلی ِ مذہب“ معاملے میں جبری اعتراف کرانے کا الزام عائد کیا

هندوستان: یوپی میں 7؍مسلمانوں نے حراستی تشدد اور ”تبدیلی ِ مذہب“ معاملے میں جبری اعتراف کرانے کا الزام عائد کیا

مبینہ ”تبدیلی مذہب کا ریکیٹ“ چلانے کے الزام میں گرفتار کئے گئے 7 مسلمان افراد نے پولیس پر غیر قانونی حراست، تشدد اور جبری اعتراف کرانے کے الزامات عائد کئے ہیں جس کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے بریلی پولیس کو سمن بھیجا ہے۔ عدالت نے بریلی پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (اے ڈی جی)، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) جیسے سینئر افسران کو 8 ستمبر کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔

ملزمین کے خاندانوں کی جانب سے دائر کی گئی ہیبیئس کارپس پٹیشن کے مطابق، ملزمین کو اگست میں سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے بغیر کسی وارنٹ یا گرفتاری میمو کے گرفتار کرلیا تھا۔ کئی دنوں تک خاندانوں کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ رشتہ داروں کے مطابق، آخرکار جب انہیں ملنے کی اجازت دی گئی تو زیر حراست افراد نے مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے اور خالی کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کرنے کی اطلاع دی۔

حراست میں لئے گئے افراد میں محمد سلمان (فیکٹری ملازم)، محمد عارف (ٹیچر)، فہیم انصاری (نائی جس پر نومسلموں کی ختنہ کرنے کا الزام ہے)، محمود بیگ (کپڑوں کا تاجر)، عالم عقیل اور محمد عبداللہ شامل ہیں۔ محمود بیگ کے خاندان نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے اس کی رہائی کیلئے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ 2014ء میں اسلام قبول کرنے والے عبداللہ کا نام پہلے برجپال تھا۔ ان کی اہلیہ تبسم نے الزام لگایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور ”گھر واپسی“ کے ذریعے ہندو مذہب میں واپس آنے کا وعدہ کرتے ہوئے کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کی والدہ اوشا رانی نے ’مکتوب‘ کو بتایا کہ عبداللہ نے رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل کیا تھا اور خاندان نے اس کے فیصلے کو قبول کر لیا تھا۔

دوسری جانب، پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد، ہندوؤں کا زبردستی مذہب تبدیل کرانے والے گروہ کا حصہ تھے۔

تاہم، اتر پردیش کی ہائی کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا کہ اگر تشدد اور غیر قانونی حراست کے الزامات سچ ثابت ہوئے تو یہ ملزمین کے”بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی“ کے مترادف ہوگا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گرفتاریوں اور ”تبدیلی مذہب کے ریکیٹ“ کے خلاف کارروائی کے بہانے مسلمانوں کو حراستی زیادتیوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔

بریلی کے ایس ایس پی انوراگ آریہ نے تصدیق کی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں گے لیکن تشدد کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ 8 ستمبر کو ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوگی جہاں زیر حراست افراد کو بھی پیش کئے جانے کی توقع ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button