میڈیا میں طالبان کی سفید پوشی؛ افغان خواتین بدستور محروم اور مظلوم
میڈیا میں طالبان کی سفید پوشی؛ افغان خواتین بدستور محروم اور مظلوم
گذشتہ 4 برسوں سے افغان خواتین خاموشی اور محرومی میں قید ہیں، جبکہ طالبان غیر ملکی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی خونی حکمرانی کی مسخ شدہ تصویر پھیلا رہے ہیں۔
فیگارو اور لی پوائنٹ کے مطابق مقبول یوٹیوبرز اور انسٹاگرامز طالبان کی حمایت سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، بازاروں اور ریسٹورنٹس میں نظر آرہے ہیں اور یہاں تک کہ طالبان کے زیر سایہ نارمل زندگی کو ظاہر کرنے کے لئے اسلحوں کے ساتھ تصاویر بھی کھینچ رہے ہیں۔
جس کی تازہ مثال ایک فرانسیسی ویڈیو گرافر تھیباٹ جونز ہے جس نے افغانستان میں 10 دن بسر کئے اور جن کی تصاویر میں وہ طالبان کے ساتھ مسکراتے ہوئے اور تفریح کے لئے کلاشنکوف چلاتے ہوئے دکھائی دئیے۔
اس کے برخلاف آزاد افغان صحافی اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں اور سماجی کارکن یا تو افغانستان سے بھاگ رہے ہیں یا جیل میں ہیں۔
یہ رجحان جسے ڈیجیٹل سفید پوشی کہا جاتا ہے دوسرے ممالک جیسے کہ روس، چین اور سعودی عرب میں بھی دیکھا جاتا ہے لیکن افغانستان میں اس کا براہ راست نتیجہ ہے: خواتین کو غلام بنانے اور اختلاف رائے کو دبانے والی حکومت کے چہرے کو صاف کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔
لی فگارو کے مطابق ہر مسکراتی اور سادہ تصویر طالبان کی پروپگنڈا مشین کا حصہ ہے اور اسے دوبارہ شائع کرنا جبر اور آزادیوں کی خلاف ورزی میں نادانستہ ملوث سمجھا جانا ہے۔