9 ربیع الاول ،عید غدیر ثانی ،فرحة الزهرا سلام الله علیها
9 ربیع الاول ،عید غدیر ثانی ،فرحة الزهرا سلام الله علیها
نہم ربیع الاول شیعہ تاریخ میں ایک نہایت اہم دن سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب عمر بن خطاب کی ہلاکت واقع ہوئی۔ شیعہ عقیدے کے مطابق یہ دن نہ صرف ایک بڑے تاریخی واقعے کی یاد دہانی ہے بلکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی دعا کے مستجاب ہونے اور ان کے دل کے سکون کا دن بھی ہے۔
اسلامی تاریخ میں عمر بن خطاب کا کردار ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آتا ہے جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے وصیت نامے کو روکنے اور خلافت کو اہل بیت علیہم السلام سے چھیننے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں دو بڑے واقعات کو نمایاں کیا جاتا ہے:
1. پنجشنبۂ سیاه (رزیۃ یوم الخمیس):
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اپنی آخری بیماری کے ایام میں امت کی رہنمائی کے لیے وصیت تحریر کرنا چاہتے تھے تاکہ امت گمراہی سے محفوظ رہے۔ اس وقت عمر نے گستاخی کرتے ہوئے کہا: *”إن الرجل لیهجر”* (یہ شخص ہذیان بک رہا ہے)۔ اس بات نے وصیت کے لکھے جانے کی راہ روک دی اور امامت و ولایت حضرت علی علیہ السلام کی تصریح تحریری طور پر درج نہ ہو سکی۔ شیعہ تاریخ میں اس دن کو "پنجشنبۂ سیاه” کہا جاتا ہے، جس نے امت کو اہل بیت علیہم السلام کی رہنمائی سے محروم کر دیا۔
2. واقعہ سقیفہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی وفات کے بعد انصار و مہاجرین سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ اس موقع پر عمر نے نہایت تیزی اور دسیسہ کاری کے ساتھ ابوبکر کی بیعت کا اہتمام کیا اور امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے محروم کر دیا۔ یہ قدم اسلامی تاریخ میں ایک بڑے انحراف کی بنیاد ثابت ہوا۔
ان واقعات کے بعد اہل بیت علیہم السلام پر مسلسل مظالم کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں وہ مظلومہ شہید ہوئیں۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام گھر میں گوشہ نشین ہو گئے۔ بعد ازاں ائمہ معصومین علیہم السلام بھی ایک ایک کرکے شہید کیے گئے۔ اسی سلسلے کی آخری اور سب سے بڑی فاجعہ کربلا میں پیش آئی، جہاں سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کو مظلومانہ طور پر شہید کیا گیا۔
شیعہ نقطہ نظر کے مطابق اسلام کی تاریخ میں بعد کے تمام ظلم و ستم، چاہے وہ بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتیں ہوں یا آج کے دور کے سلفی اور انتہا پسند گروہ، سب اسی سقیفہ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔
نہم ربیع الاول کو شیعہ حضرات اس لیے خوشی و مسرت کا دن قرار دیتے ہیں کہ اس روز ایک بڑے خائن کی ہلاکت ہوئی، جس نے اسلام کو اہل بیت علیہم السلام کی قیادت سے محروم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ یہ دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی دعا کی قبولیت کا دن ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے دشمن کے لیے بددعا کی تھی۔
اسی وجہ سے شیعہ دنیا بھر میں اس دن جشن اور مسرت کے پروگرام منعقد کرتے ہیں، کیونکہ یہ دن صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اہل بیت علیہم السلام سے تجدیدِ عہد اور ولایت علوی کے ساتھ وابستگی کا دن ہے۔