اسلامی دنیاتاریخ اسلام

4 ربیع الاول غارِ ثور سے مدینہ منورہ کی طرف رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا خروج

ہجرتِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ تاریخِ اسلام کا ایک ایسا نقطۂ عطف ہے جس نے دینِ حق کی اشاعت کے لیے ایک نیا باب کھول دیا۔ یہ واقعہ وفادار یاران کے پیمانِ عقبہ، تدبیرِ الٰہی، غیبی امداد، دشمنوں کی رسوائی اور بعض ہمراہیوں کی بزدلی کے ساتھ ایک نئے دور کی بنیاد ثابت ہوا۔

۴ ربیع الاول سنہ ۱ ہجری وہ دن ہے جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے غارِ ثور سے مدینہ منورہ کی طرف روانگی کی یاد دلاتا ہے۔

ہجرتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ بیعتِ عقبۂ ثانی کے بعد شروع ہوئی۔ اس موقع پر قبیلہ خزرج کے چند افراد نے یہ عہد کیا کہ وہ شرک نہیں کریں گے، چوری اور قتلِ اولاد سے اجتناب کریں گے، بہتان نہیں باندھیں گے اور نیک اعمال میں نافرمانی نہیں کریں گے۔

کتاب تاریخِ مفصل اسلام (ص ۶۷) اور السیرۃ النبویہ (جلد ۲، ص ۵۲) میں مذکور ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
«اگر تم اپنے عہد پر قائم رہو گے تو تمہارا ٹھکانا جنت ہے»۔
یہی پیمان ہجرتِ عظیم کا سبب بنا۔

قریش نے اس تحریک کو روکنے کے لیے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
قرآنِ کریم سورۂ انفال، آیت ۳۰ میں فرماتا ہے:

"اور (یاد کرو) جب کافر لوگ تیرے بارے میں تدبیر کر رہے تھے کہ تجھے قید کر لیں یا قتل کر دیں یا نکال دیں۔ وہ تدبیر کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر فرما رہا تھا، اور بہترین تدبیر کرنے والا اللہ ہے۔”

اسی رات، یعنی یکم ربیع الاول کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ مکہ سے نکلے اور غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ ابوبکر راستے میں ملے اور بعض میں مذکور ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے انہیں غار کا راستہ بتایا۔ یہ اختلاف خود اس ہمراہی کی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔

ابوبکر پورے سفر میں خوف اور اضطراب کا شکار رہے۔ کئی بار انہیں خطرہ ہوا کہ مشرکین تعاقب میں ہیں اور ان کی لرزش ایسی تھی کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے انہیں تسلی دی۔ اسی موقع پر سورۂ توبہ، آیت ۴۰ نازل ہوئی:

"غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔”

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ وہ خوفزدہ تھے جبکہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ توکل و اطمینان کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

ادھر قدرتِ الٰہی کے معجزات ظاہر ہوئے۔ غار کے دہانے پر مکڑی نے گھنا جالا تن دیا اور کبوتری نے انڈے دے دیے۔ مشرکین جب تک غار تک پہنچے، یہ منظر دیکھ کر لوٹ گئے اور منصوبہ ناکام ہوا۔

تین دن غار میں قیام کے بعد، چوتھی شب امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے سواری اور رہبر بھیجا۔ یوں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ پورے اطمینان اور امید کے ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے، جب کہ ان کا ہمراہی اب بھی خوفزدہ تھا۔

ہجرتِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ دراصل تدبیرِ الٰہی، وفاداریِ علی علیہ السلام اور ابوبکر کی کمزوری و لرزش کا آئینہ تھی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اعتماد اور عزم کے ساتھ اپنے مشنِ الٰہی کی جانب قدم بڑھایا اور اسی کے ساتھ اسلامی امت اور حکومتِ عدلِ محمدی کی بنیاد رکھی گئی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button