ثقافت اور فنخبریں

زبان کے چھپے زخم؛ بچوں کے لئے جسمانی تشدد سے زیادہ سنگین خطرہ

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ بچپن میں زبانی بد سلوکی ذہنی صحت پر جسمانی تشدد سے زیادہ نقصان دہ اثرات مرتب کرتی ہے۔

ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس قسم کے تشدد کو اس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے باوجود اب بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے اور اس کے لئے ثقافتی اصلاحات اور عوامی بیداری میں اضافے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

بچے بڑوں کے الفاظ سے اس سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں جتنا کوئی سوچ سکتا ہے۔

"بی ایم جے اوپن جریدے” میں شائع ہونے والی اور "سی این این” کے ذریعہ رپورٹ کردہ ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن میں زبانی بدسلوکی ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے میں جسمانی زیادتی کے برابر یا اس سے بھی زیادہ سنگین کردار ادا کرتی ہے۔

20000 سے زائد بالغوں کے اعداد و شمار پر مبنی انگلینڈ اور ویلز کے مطالعہ کے مطابق، جن بچوں کو جسمانی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ان میں بالغوں کے طور پر ذہنی صحت کے مسائل سے لڑنے کے امکانات 50 فیصد زیادہ تھے۔ لیکن زبانی بدسلوکی کا سامنا کرنے والوں میں یہ تعداد 60 فیصد تک پہنچ گئی۔

اس دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ زبان کے زخم نہ صرف پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ جسمانی زخموں سے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔

حالیہ دہائیوں میں جسمانی تشدد میں نسبتا کمی کے باوجود زبانی بدسلوکی بڑھ رہی ہے۔

مضمون کے مصنف ڈاکٹر مارک بلیس نے باخبر کیا کہ توہین آمیز بیانات، مذمت، تکلیف دہ موازنہ، یا "تم بیکار ہو” یا "تم ہمیشہ غلطی کرتے ہو۔” جیسے بیانات بچوں کے ذہنوں میں حقیقت کے طور پر درج ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت اور خود اعتمادی کی تشکیل کو متاثر کرتے ہیں۔

ایپیڈیمولوجی کی پروفیسر ڈاکٹر شانتاڈاپ بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ زبانی تشدد کو اکثر اپنی غیر مرئی نوعیت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ اس کے گہرے اور طویل مدتی نتائج ہوتے ہیں۔

امریکہ میں اسی طرح کے مثالیں بھی اس انتباہ کو تقویت دیتی ہیں۔

نو عمروں کے سروے سے پتہ چلا کہ ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ نے جذباتی زیادتی کا تجربہ کیا تھا اور 32 فیصد کو جسمانی ذیادتی کا سامنا کرنا پڑا تھا، ایسے اعداد و شمار جو نئی تحقیق کے نتائج سے قریب تر ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ زبان کی اہمیت صرف بچوں پر اس کے اثرات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ بالغوں کی زبان ان کی ذہنی دنیا کے لئے تعمیری یا تباہ کن ہو سکتی ہے۔

اگر ایک بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جو رحم دلی، احترام اور مثبت الفاظ سے بھرا ہوا ہو تو اس کا مستقبل روشن ہوگا اور وہ مشکلات میں زیادہ ثابت قدم رہے گا۔

امپیریل کالج لندن میں چائلڈ سائیکاٹری کی پروفیسر ڈاکٹر انڈریا دانس کہتی ہیں کہ "اس کا مقصد والدین یا اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرانا نہیں بلکہ عوام میں شعور بیدار کرنا ہے۔”

اور ان کی رائے میں تمام بالغ افراد جو بچوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ والدین سے لے کر اساتذہ اور یہاں تک کے رشتہ داروں تک کو اس طاقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کے الفاظ بچے کی اندرونی دنیا کو بنانے یا تباہ کرنے میں کس قدر طاقت رکھتے ہیں۔

آخر میں یہ کہنا چاہیے کہ قرآن کریم اور علوی اسلام کی تعلیمات نیز اہل بیت علیہم السلام کی روایات نے ہمیشہ اچھی بات کرنے، ذلت سے بچنے اور انسانی عزت کے تحفظ پر زور دیا ہے۔

جس طرح زبان ایک بچے کی روح پر دائمی نشان چھوڑ سکتی ہے۔ یہ امید، محبت اور ایمان کا دریا بھی بن سکتی ہے اور یہ ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ ہم زبان کو اپنے بچوں کی پرورش میں روشن مستقبل کی تعمیر کے ذریعہ کے طور پر استعمال کریں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button