اس دعوی پر تنازعہ کے 85 فیصد مہاجرین مسلمان ہیں؛ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں
پرتغال میں دائیں بازو کی پارٹی "چیگا” نے ایک بار پھر یہ دعوی کر کے اسلاموفوبیا کی لہر دوڑا دی ہے کہ "پناہ گزینوں کی اکثریت مسلمان ہے۔” لیکن اقوام متحدہ اور میزبان ممالک کے اعداد و شمار کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
حالیہ دنوں میں پرتغال میں دائیں بازو کی چیگا پارٹی سے وابستہ ایک سیاستدان نے سوشل نیٹ ورک ایکس پر دعوی کیا کہ "85 فیصد مہاجرین مسلمان ہیں۔”
یورو نیوز کی جانب سے گونجنے والے یہ بیانات اسی اسلام مخالف نقطہ نظر کا تسلسل ہیں جو اس سے قبل پارٹی کی رہنما اینڈریا وینٹورا سے سنا گیا تھا، جس نے واضح طور پر "یوروپی یونین میں مسلمانوں کی موجودگی میں کمی” کا مطالبہ کیا ہے۔
چیگا پارٹی کے ایک اور رکن پدرو فرازاؤ نے بھی اسی طرح کے بیانات دیتے ہوئے دعوی کیا کہ مہاجرین بنیادی طور پر اسلامی ممالک میں پناہ لینے کے بجائے مغرب کی جانب بھاگ جاتے ہیں۔
لیکن کیا ایسے دعوے واقعی سرکاری اعداد و شمار سے میل کھاتے ہیں؟
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں دنیا میں تقریبا 42.7 ملین مہاجرین تھے۔
اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ 73.5 ملین اندرونی طور پر بے گھر ہوئے اور 8.4 ملین پناہ گزین بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ ہیں۔
اس سال پناہ گزینوں کے اصل ممالک یہ ہیں: شام، افغانستان، جنوبی سوڈان، وینزویلا اور یوکرین۔
جبکہ پہلے 3 ممالک میں مسلم اکثریت ہے، آخری 2 بنیادی طور پر عیسائی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے یورو نیوز کو بتایا: "یوکرین اور وینزویلا کے پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ دعوی کے 85 فیصد مہاجرین مسلمان ہیں ناممکن معلوم ہوتا ہے۔” یہ تبصرہ ظاہر کرتا ہے کہ چیگا کی تصویر کشی اعداد و شمار پر مبنی ہونے کے بجائے سیاسی گفتگو اور اسلام مخالف رویوں سے جڑی ہوئی ہے۔
دوسری جانب اس دائیں بازو کی پارٹی کے دعووں کے برعکس اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد یورپ میں نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں رکھی گئی ہے۔
ترکی، ایران، پاکستان اور چاڈ، ان ممالک کی فہرست میں سر فہرست ہیں جنہوں نے اپنی سرزمین پر لاکھوں پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے۔
پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے سر فہرست 7 ممالک میں صرف جرمنی ہی شامل ہے اور دیگر یورپی ممالک اسلامی ممالک کی میزبانی کرنے والے شخصیات سے بہت پیچھے ہیں۔
اس اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ دین سے زیادہ براہ راست جنگوں، معاشی بحرانوں اور سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ ہے۔
مذہبی لیبرز پر توجہ مرکوز کرنا جیسا کہ چیگا پارٹی کرتی ہے سماجی تقسیم کو گہرا کرنے اور یورپ میں اسلاموفوبیا کی نئی لہروں کو ہوا دے سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پناہ گزین دین یا ملت سے قطع نظر عالمی بحرانوں کا براہ راست شکار ہیں اور ان کے ساتھ انسانی، منصفانہ سلوک کی ضرورت ہے جو سیاسی زیادتی سے پاک ہو۔