تاریخ اسلاممقالات و مضامین

28 صفر؛ یوم شہادت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ

28 صفر الاحزان سن 11 ہجری کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی وفات بلکہ شہادت ہوئی۔

شیعہ اور سنی منابع میں مختلف روایات موجود ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کو فطری موت نہیں بلکہ شہادت قرار دیتی ہیں۔

ان روایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت ثابت ہوتی ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

اسلامی منابع کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی موت عام موت نہیں تھی بلکہ زہر دے کر آپ شہید کئے گئے۔ لہذا ان کے لئے لفظ شہادت کا استعمال نہ کرنا خود ان پر ظلم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو زہر دینے کی نوعیت اور جس نے آپ کو زہر دیا اور کیوں زہر دیا؟ شیعہ اور سنی منابع اور مختلف تاریخی کتب میں متعدد اور متواتر روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اب ہم فریقین کے منابع کا حوالہ دیتے ہوئے ان میں سے متعدد روایات کی جانب اشارہ کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور صحابہ سے منقول احادیث و روایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت کی تصدیق ہوتی ہے۔

کتاب "بصائر الدرجات” اور اسی طرح "بحار الانوار” میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "کوئی نبی یا ان کا وصی نہیں مگر یہ کہ وہ شہید ہو۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود جو بقیع میں دفن ہیں، انہوں نے تصدیق کی اور اس بات پر زور دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی سن 10 ہجری میں شہادت ہوئی۔

کتاب بحار الانوار جلد 22 صفحہ 516 میں منقول روایت کے مطابق عائشہ اور حفصہ نے انہیں زہر پلایا۔

بعض شیعہ علماء جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت کی تائید کرتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، فقیہ، محدث اور متکلم جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا: سن 10 ہجری میں ماہ صفر ختم ہونے سے دو رات قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی زہر سے شہادت ہوئی۔

ساتویں اور اٹھویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، مجتہد، فقیہ اور اصولی علامہ حلی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ زہر سے شہید ہوئے۔

گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، محدث اور ماہر علم رجال جناب محمد بن علی اردبیلی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ مدینہ میں زہر دغا سے شہید ہوئے۔

اہل سنت کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت کا تذکرہ

صرف شیعہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت نہیں مانتے بلکہ صحاح ستہ سمیت اہل سنت کی دیگر کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جو اس مسئلہ کی تصدیق کرتی ہیں۔

تیسری صدی ہجری کے بغداد کے مشہور سنی متعصب مورخ اور سوانح نگار محمد بن سعد بن منیع ہاشمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی زندگی اور سیرت کے سلسلہ میں لکھا: روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے 63 برس میں زہر کے سبب رحلت فرمائی۔

چوتھی صدی ہجری کے شافعی ترجمہ نگار محمد بن عبداللہ حاکم نیشابوری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت کی تائید کی ہے۔

شافعی مذہب تاریخ نگار ابو الفضل محمد بن حسین بیہقی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: اگر میں 9 بار قسم کھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو شہید کیا گیا تو یہ میرے لئے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک بار قسم کھاؤں کہ آپ کو شہید نہیں کیا گیا کیونکہ اللہ نے آپ کو شہید نبی بنایا ہے۔

شیعہ اور سنی کتب میں منقول تمام روایات کا حوالہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی زہر دغا سے شہادت کے نظریہ کو تقویت دی جا سکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے قتل کی سازش اور آپ کی زندگی کے آخری ایام میں "حدیث قرطاس” کا واقعہ

عقبہ میں اہل بیت علیہم السلام دشمنوں کی جانب سے زندگی کے آخری ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے قتل کی سازش خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ کے مصائب میں شامل ہے۔ جیسا کہ مورخین نے لکھا کہ واقعہ غدیر کے بعد کچھ لوگوں نے مدینہ واپسی پر امیر المومنین علیہ السلام کی جانشینی کا مقابلہ کرنے کے لئے بغاوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے قتل کی سازش کی اور ایک منصوبہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی اونٹنی کو ایسی جگہ سے گزارنے کا فیصلہ کیا جہاں اس کا پاؤں ایک گڑھے میں دھنس جائے اور وہ گر جائے تو یہ لوگ حملہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو شہید کر دیں۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں کچھ صحابہ کی موجودگی میں رونما ہوئے واقعہ کہ جسے حدیث قرطاس کہتے ہیں، حضور نے فرمایا: "آتوني بدوات وقرطاس اكتب لكم كتابا لن تذل بعده” (میرے لئے دوات اور کاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرمان کا مقصد

امت کو گمراہی سے بچانا تھا۔ جس پر خلیفہ دوم کا جواب قابل غور ہے کہ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: "حسبنا كتاب الله” (ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے حکم اور عمر کے جواب کے بعد اصحاب میں شور و غل برپا ہو گیا۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ قلم اور دوات لے آئیں تو عمر بن خطاب نے دیکھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ چاہتے ہیں وہ لکھ جائے گا لہذا تمام تر بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ جسارت کرتے ہوئے کہا: "ان الرجل ليهجر” یہ آدمی ہذیان بول رہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شہادت 28 صفر الاحزان سن 11 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ شہادت کے ہنگام آپ کا سر مبارک آپ کے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سینے پر تھا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button