عراق میں موصل کے قریب داعش سے منسلک اجتماعی قبر سے لاشوں کی برآمدگی کا آغاز
عراق میں موصل کے قریب داعش سے منسلک اجتماعی قبر سے لاشوں کی برآمدگی کا آغاز
عراق نے موصل کے قریب واقع "الخسفہ” نامی اجتماعی قبر سے انسانی باقیات نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ داعش نے 2014 سے 2017 کے دوران ہزاروں افراد کو قتل کر کے پھینکا تھا۔ یہ کارروائی نہ صرف داعش کے مظالم کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ عدالتی انصاف کی راہ میں درپیش چیلنجز کو بھی نمایاں کرتی ہے، خصوصاً اُس وقت جب عراق نے اقوامِ متحدہ کی تحقیقی ٹیم کی معاونت ختم کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار *دی نیشنل* کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدالتی نگرانی میں فارنزک ٹیموں نے اتوار کے روز برآمدگی کا آغاز کیا۔ داعش کے قبضے سے قبل موصل کے جنوب میں واقع الخسفہ کی گہرائی تقریباً 400 میٹر تھی، تاہم آج یہ خاصی کم ہو چکی ہے اور یہاں کم از کم 4 ہزار افراد کی لاشیں موجود ہونے کا امکان ہے، جنہیں داعش نے اپنے اقتدار کے دوران وہاں پھینکا تھا۔
یہ مقام اُن خاندانوں کے لیے نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے جو اپنے لاپتہ عزیزوں کے بارے میں معلومات کے منتظر ہیں۔ لیکن برآمدگی کا یہ عمل اس بڑے مسئلے کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ داعش کے جرائم کو دستاویزی شکل دینا اور مجرموں کو کٹہرے میں لانا عراقی حکام کے لیے اب بھی ایک مشکل ترین چیلنج ہے۔ داعش کے مظالم میں مرنے والوں کی اصل تعداد تاحال نامعلوم ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تقریباً ایک سال قبل عراق نے اقوام متحدہ کی تحقیقی ٹیم یونٹاد (UNITAD) کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ٹیم 2017 سے داعش کے جرائم کے شواہد اکٹھا کر رہی تھی۔ بغداد کا مؤقف تھا کہ یونٹاد اہم معلومات فراہم نہیں کر رہی اور سزائے موت کے معاملے پر عراق کے عدالتی طریقہ کار سے متصادم ہے۔ دوسری جانب یونٹاد نے عراقی عدلیہ پر شفافیت اور حفاظتی اقدامات کی کمی کا الزام عائد کیا تھا۔
یونٹاد کے اختتام تک محض 15 مقدمات میں کامیاب سزائیں دی جا سکیں، وہ بھی زیادہ تر یورپی عدالتوں میں۔ سول سوسائٹی نے بھی اس مشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یونٹاد مستقبل میں احتساب کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل چھوڑنے میں ناکام رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق کا یہ فیصلہ بین الاقوامی نگرانی کم کرنے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے، اور بغداد نے عندیہ دیا ہے کہ 2025 تک اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن یونامی (UNAMI) کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ تاہم مبصرین کے مطابق داعش کے مظالم انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں جو قومی دائرۂ اختیار سے بالاتر ہیں۔
بین الاقوامی مثالوں میں گزشتہ سال پرتگال کی عدالت میں داعش کے ایک رکن کو جنگی جرائم میں سزا دیے جانے کو بھی شامل کیا جاتا ہے، جو اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ عالمی دائرۂ اختیار ایسے مقدمات میں کس قدر اہم ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عراق میں داعش کے مقدمات عموماً شفافیت اور منصفانہ ٹرائل سے محروم ہوتے ہیں جس سے عدالتی عمل پر خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عراق نے اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات نہ کیں تو الخسفہ سے حاصل ہونے والے اہم شواہد ضائع ہو سکتے ہیں اور یہ اجتماعی قبر ایک بار پھر خاموشی میں دفن ہو جائے گی۔