سیاہ پنجشنبہ اور امتِ رسول صلی الله علیه و آله میں آغازِ انحراف
سن 11 ہجری میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو تاریخِ اسلام میں "سیاہ پنجشنبہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ حادثہ امتِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو ایسے موڑ پر لے آیا جس کے اثرات عاشورا اور اس کے بعد کے سانحات تک جاری رہے۔
24 صفر 11 ہجری کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے، امت کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اپنی وصیت کو تحریری شکل دینے کا ارادہ فرمایا اور قلم و دوات طلب کی۔
یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسے معتبر سنی کتب میں بھی مذکور ہے اور اسے اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ اپنی علالت کے بستر پر تھے اور چند صحابہ آپ کے گرد موجود تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا:
«اِئتُوني بِكِتابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا.»
(میرے لیے نوشت افزار لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔)
لیکن عمر بن خطاب نے سخت لہجے میں کہا:
«إِنَّ الرَّجُلَ لَيَهْجُرُ، حَسْبُنا كِتابُ الله.»
(یہ شخص [نعوذ باللہ] ہذیان بک رہا ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔)
یہ گستاخانہ جملہ سن کر صحابہ میں اختلاف پیدا ہوا۔ کچھ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی خواہش پوری کی جائے، جبکہ کچھ عمر کے ہم نوا بن گئے۔ آخرکار رسول خدا نے غم و اندوہ کے عالم میں فرمایا:
«قُوموا عَنّي.»
(میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔)
یوں امت اس وصیتِ تحریری سے محروم رہ گئی۔
عبداللہ بن عباس جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے، برسوں بعد روتے ہوئے کہا کرتے تھے:
«الرَّزِيَّةُ كُلُّ الرَّزِيَّةِ ما حال بين رسول الله وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب.»
(سب سے بڑی مصیبت وہ تھی جس نے رسول اللہ اور ان کی تحریری وصیت کے درمیان رکاوٹ ڈالی۔)
یہ واقعہ "سیاہ پنجشنبہ” یا "رزیہ یوم الخمیس” کے نام سے معروف ہوا اور ہمیشہ محدثین و مفسرین کے درمیان موضوعِ بحث رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ امت کے لیے واضح سند چھوڑنا چاہتے تھے لیکن عمر بن خطاب کی مخالفت نے امت کو اس نعمت سے محروم کر دیا۔ یہی محرومی بعد میں امت میں اختلافات اور سقیفہ کے قیام کا سبب بنی، جہاں کچھ صحابہ نے اہل بیت علیہم السلام کو نظرانداز کرتے ہوئے خلافت کا فیصلہ کر لیا۔
یہی انحراف آگے چل کر امیرالمومنین علیہ السلام کی گھر نشینی، امام حسن مجتبی علیہ السلام کا صلح نامہ اور عاشورا جیسے دلخراش سانحات کا باعث بنا۔
سیاہ پنجشنبہ اور سقیفہ، دونوں ایسے فیصلوں کی مثال ہیں جن میں وقتی مصلحتوں اور غفلت نے امت کو ہمیشہ کے لیے گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔