افغان زائرین کے لئے ویزے کے اجرا پر ابہام اور اربعین کے عزاداروں پر پاکستان حکومت کا دباؤ
افغان زائرین کے لئے ویزے کے اجرا پر ابہام اور اربعین کے عزاداروں پر پاکستان حکومت کا دباؤ
یوم اربعین کی آمد آمد ہے، لیکن افغان زائرین ابھی تک ایران اور عراق کے ویزوں کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ پاکستانی صوبہ پنجاب میں حکومت اربعین مارچ کو دھمکیوں اور دباؤ کے ذریعہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
اربعین حسینی میں دو دن پہلے تک افغانستان کے زائرین کے لئے ایران اور عراق کے ویزے جاری کرنے کی صورتحال واضح نہیں ہوئی، زائرین کی کمپنیوں اور اس زیارت میں شرکت کے خواہش مند افراد میں تشویش عروج پر پہنچ گئی ہے۔
آوا نیوز ایجنسی کے مطابق ایران نے ویزے جاری کرنے کی آخری تاریخ 18 صفر اور داخلے کی آخری تاریخ 20 صفر مقرر کی تھی لیکن پیر 17 صفر تک ان زائرین کو ایک بھی ویزہ جاری نہیں کیا گیا۔
کابل میں زائرین کی کمپنیوں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے مقرر کردہ 11 شرائط میں سے صرف 500 ڈالر کی واپسی کی رقم ادا کرنے کی شرط کو منسوخ کیا گیا ہے۔ تاہم بنیادی مسائل جیسے کہ سفری سہولیات کی کمی اور ویزوں کے اجرا کی مختصر ڈیڈ لائن کو حل نہیں کیا گیا ہے۔
ان کارکنوں کے مطابق ایرانی وزارت ٹرانسپورٹ نے بھی اعلان کیا ہے کہ افغان زائرین کو شلمچہ اور چذابہ پہنچانا ممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ عراقی ویزا جاری کرنے کے شرائط میں ابہام بشمول مفت حاصل کرنا یا 80 یورو فیس دینی ہے، نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اس ویزے کے حصول اور اسے ایرانی سفارت خانے میں منتقل کرنے کے وقت طلب عمل کو دیکھتے ہوئے اس شعبہ میں سرگرم کارکنوں نے باخبر کیا ہے کہ اگر ویزا کے اجرا کی آخری تاریخ میں کم از کم 20 دن کی توسیع نہ کی گئی تو اس سال افغان زائرین کو اربعین بھیجنا ناممکن ہو جائے گا۔
سخت کوٹہ ایک اور رکاوٹ ہے، ہر کمپنی کا کوٹہ شروع میں 11 افراد کا تھا اور پھر اسے بڑھا کر 40 کر دیا گیا لیکن یہ اب بھی پچھلے برسوں کی استعداد سے بہت کم ہے۔
دریں اثنا پاکستان سے مذہبی پابندیوں کی تشویش ناک اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
پنجاب حکومت نے عزاداری منعقد کرنے کے اجازت نامے رکھنے والوں، سبیل لگانے والوں اور سیکورٹی کمیٹیوں کے ارکان کو طلب کیا ہے اور ان پر اربعین مارچ کے انعقاد سے اظہار برأت کرنے پر دباؤ ڈالا ہے۔
انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اعتراض کیا تو ان کے نام "چوتھی سیکورٹی لسٹ” میں شامل کر دیے جائیں گے۔
ناقدین اس اقدام کو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کی واضح خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جہاں دیگر اسلامی فرقوں کے پیروکار مکمل آزادی سے رسومات منعقد کرتے ہیں وہیں مکتب اہل بیت علیہم السلام سے تعلق رکھنے والوں کو حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی پابندیوں اور دباؤ کا سامنا ہے۔
دو محاذوں پر مسائل درپیش ہیں۔ افغان زائرین کے لئے ویزے کا مسئلہ اور پنجاب میں سکیورٹی کا دباؤ۔ ان چیلنجز کی نمائندگی کرتے ہیں جن کا سامنا کچھ اربعین عزاداروں کو ہے جو کربلا سے گہری محبت کے باوجود سیاسی اور انتظامی رکاوٹوں سے دوچار ہیں۔
یہ حالات ذمہ دار اداروں کی طرف سے ہم آہنگی اور سنجیدہ اقدام کی ضرورت کو مزید واضح کر دیتے ہیں۔
آنے والے برسوں کے لئے ابتدائی منصوبہ بندی، حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی اور سیاسی اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے سے زائرین اربعین کی آسانی اور وسیع تر شرکت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔