شیعہ مرجعیت

18 صفر الاحزان — یومِ وفات علامہ میر حامد حسین موسویؒ

18 صفر الاحزان — یومِ وفات علامہ میر حامد حسین موسویؒ

آج 18 صفر الاحزان کو تیرہویں صدی ہجری کے عظیم محقق، مفسر اور مدافعِ تشیع، علامہ میر حامد حسین موسوی ہندیؒ کا یومِ وفات منایا جا رہا ہے۔ آپ 1246 ہجری میں پیدا ہوئے اور 1306 ہجری میں وفات پائی۔ سید مہدی ابو ظفر کے نام سے موسوم، آپ کو علمی دنیا میں "میر حامد حسین ہندی” کے لقب سے شہرت حاصل ہوئی۔

علامہ میر حامد حسینؒ برصغیر کے ممتاز سادات اور جید شیعہ علما میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دینِ اسلام خصوصاً مذہبِ اہلِ بیتؑ کے دفاع میں صرف کیا۔ شیعہ عقائد کے خلاف لکھے گئے متعدد مضامین اور کتابوں کا مدلل جواب دیا اور اپنی تحریروں سے علمی دنیا میں گہرا اثر چھوڑا۔ آپ کی سب سے مشہور اور شاہکار تصنیف "عبقات الانوار” ہے، جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں آپ نے نہایت علمی اور تحقیقی انداز میں امامت و ولایتِ حضرت علی علیہ السلام کے حق میں دلائل فراہم کیے۔

علامہ کے قلمی آثار کی فہرست نہایت طویل ہے۔ ان کی تحریریں فقہ، کلام، سفرنامہ، شعر اور مناظرات جیسے موضوعات پر محیط ہیں۔ "عبقات الانوار” کے علاوہ "استقصاء الفحام”، "افحام اہل المین”، "العشرۃ الکاملۃ”، "اسفار الانوار”، "کشف المعضلات”، "النجم الثاقب”، "الدرر السنیۃ”، "الذرائع”، "شوارق النصوص”، "زین المسائل”، "درۃ التحقیق” اور "الغصب البتار” جیسی اہم کتب آپ کی علمی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اہلِ علم کی نظر میں میر حامد حسینؒ کا مقام نہایت بلند ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی نے "عبقات الانوار” کی تعریف میں آپ کو "ذی الفضل الغزیر” اور "عدیم النظیر” قرار دیا۔ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو ایسا جستجو کرنے والا عالم کہا جس کی علمی تحقیق اور زمانہ شناسی میں کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ علامہ امینی نے "الغدیر” میں آپ کی کتاب "عبقات الانوار” کو دین کا دفاع کرنے والی ایسی تلوار سے تشبیہ دی جس کی تاثیر عالمگیر ہے اور جس میں باطل کے لیے کوئی گزر نہیں۔

"اعیان الشیعہ” میں آپ کو اپنے دور کے سب سے بڑے متکلم، مناظر اور دین کے محافظ کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ مؤلفِ "ریحانۃ الادب” کے مطابق آپ نہ صرف فقاہت میں ماہر تھے بلکہ حدیث، رجال اور علمِ کلام میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے، خصوصاً مسئلہ امامت میں آپ کی تحقیق بے مثال تھی۔ مذہب کی خدمت کے لیے آپ نے اپنی صحت کی قربانی بھی دی، یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میں دایاں ہاتھ معذور ہونے کے بعد بائیں ہاتھ سے لکھنا شروع کر دیا۔

ماہرین کے مطابق "عبقات الانوار” کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک علمِ کلام میں خصوصاً امامت کے موضوع پر اس معیار کی تحقیق اور استدلال کسی اور نے پیش نہیں کیا۔ علامہ میر حامد حسین موسویؒ کی زندگی اور علمی خدمات نہ صرف برصغیر بلکہ پوری شیعہ دنیا میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button