افریقہ

سوڈانی شہر الفاشر میں انسانی بحران: شہری جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور

سوڈانی شہر الفاشر میں انسانی بحران: شہری جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور

سوڈان کے شہر الفاشر، واقع شمالی دارفور میں، قحط اور جنگی صورتحال نے ایک خطرناک انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ شہر کا دو ماہ سے محاصرہ جاری ہے، جسے پیرا ملٹری گروپ "ریپڈ سپورٹ فورسز” (RSF) نے فوج کے زیرِ کنٹرول آخری شہری مرکز کے طور پر گھیر رکھا ہے۔ محاصرے کے باعث خوراک، پانی اور ادویات کی ترسیل مکمل طور پر بند ہو چکی ہے، جس سے لاکھوں افراد شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

الفاشر میں موجود بے گھر افراد کے کیمپوں میں صورتِ حال انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔ وہاں کے ایک شہری، عثمان انگارو نے عالمی میڈیا سے اپیل کی کہ دنیا ہماری حالت پر رحم کرے، ہمیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے، چاہے ہوائی راستے سے ہو یا زمینی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور دیگر شہری "امباز” نامی چارہ کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو کہ مونگ پھلی کے چھلکوں سے تیار کیا جاتا ہے اور عام طور پر مویشیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

شہر میں ایک خیراتی ادارہ، "مطبخ الخیر”، بھی محدود پیمانے پر ایک وقت کا کھانا فراہم کر رہا ہے، تاہم وسائل انتہائی کم ہیں۔ ایک مقامی ویٹرنری ڈاکٹر، زلفہ النور نے خبردار کیا کہ اب امباز کا چارہ بھی ختم ہونے والا ہے اور فوری بین الاقوامی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے "انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن” (IPC) نے الفاشر میں قحط کو شدید ترین درجہ "فیز 5” قرار دیا ہے، جو مکمل قحط کی علامت ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، خانہ جنگی کے باعث سوڈان میں اب تک 1 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

ریپڈ سپورٹ فورسز نے نہ صرف شہر کا محاصرہ کیا ہے بلکہ امدادی قافلوں پر حملے بھی کیے ہیں، جس سے خوراک کی ترسیل مکمل طور پر رک گئی ہے۔ مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ شدید غذائی قلت نے لوگوں کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ وہ عام بیماریوں، جیسے کہ ہیضہ، کا مقابلہ بھی نہیں کر پا رہے۔ ہیضہ کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، اور اب تک 4 ہزار سے زائد کیسز اور 191 ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔

جنوبی دارفور کے کیمپوں میں بھی بھوک اور بیماری سے اموات کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ الفاشر میں مسلسل بمباری اور گولہ باری کے باعث قبرستانوں میں بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔ صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری عالمی توجہ اور امداد کی ضرورت ہے تاکہ ہزاروں بے قصور جانیں بچائی جا سکیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button