عراق

سنجار میں داعش کے دہشتگردانہ حملے کی 11ویں برسی

سنجار میں داعش کے دہشتگردانہ حملے کی 11ویں برسی

داعش کے دہشتگرد گروہ کے سنجار پر حملے کو گیارہ سال مکمل ہونے کے موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین اور ان مظالم سے بچ نکلنے والے افراد نے ایک بار پھر بین الاقوامی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بغداد و اربیل کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنجیدہ اقدامات کریں تاکہ ان ہزاروں مغویوں کا پتہ چلایا جا سکے، جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں۔

اس دلخراش سانحے کو ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، ہزاروں خاندان آج بھی اپنے پیاروں کے انتظار کے کرب میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مل سکی، جو 2014 میں داعش کے حملے کے دوران اغوا کر لیے گئے تھے۔ بہت سے خاندان آج بھی نقل مکانی کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں شدید انسانی بحران اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔

اغوا شدگان کے معاملات پر کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی افراد، جن میں اکثریت ایزدی برادری سے تعلق رکھتی ہے، لاپتہ ہیں۔ اگرچہ گزشتہ سالوں میں ہزاروں مغویوں کو بازیاب کرایا جا چکا ہے، مگر بہت سے اب بھی داعش کے چنگل میں ہیں یا ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

یہ برسی ایک موقع ہے کہ سنجار کے عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی شدت کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ لاپتہ افراد کے انجام کو جاننے کے لیے مقامی و عالمی سطح پر مزید کوششیں کی جائیں، اور ان مظلوم و متاثرہ افراد کو نفسیاتی و سماجی سہارا دیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ معمول پر لا سکیں۔

تاحال لاپتہ افراد کی تعداد 2500 سے زائد بتائی جاتی ہے، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، جبکہ سنجار کے ہزاروں لوگ آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، اور ان کی اپنے آبائی علاقوں میں باعزت اور محفوظ واپسی مختلف رکاوٹوں کے باعث ممکن نہیں ہو پا رہی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button