نیویارک ٹائمز نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نیویارک کے علاقے پارک ایوینیو میں اجتماعی فائرنگ کی اطلاع آتے ہی سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات کا سیلاب آ گیا۔ ان پوسٹس میں اس قتلِ عام کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر الزام عائد کیا گیا اور شہر کے پہلے ممکنہ مسلمان میئر زهران ممدانی کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "گزشتہ ماہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخابات میں زهران ممدانی کی حیران کن کامیابی، جو کہ بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، نہ صرف نیویارک بلکہ پورے امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنی۔”
انتہائی دائیں بازو کی اشتعال انگیز شخصیت، لورا لومر، جو کہ کئی سازشی نظریات کو فروغ دیتی رہی ہیں اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قریبی مانی جاتی ہیں، نے زهران ممدانی پر حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا:
"زهران ممدانی اسلام کے حامی پولیس کے قاتلوں کی نسل کو متاثر کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو بطور مہاجر منتخب نہیں کیا جانا چاہیے۔”
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی اور ممدانی کی حامی سٹی کونسل کی رکن، شاہانہ حنیف، جو کہ بنگلہ دیشی نژاد مسلمان امریکی ہیں، نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والے "گمراہ کن پروپیگنڈے” کی مذمت کی، جس میں مسلمانوں اور ان کے میئر امیدوار زهران ممدانی کو گزشتہ شب کے قتلِ عام کا ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا:
"یہ متعصبانہ بیانیہ نہ صرف ہمارے ان افراد کی توہین ہے جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں بلکہ یہ ہماری مسلمان کمیونٹی کو خطرے میں بھی ڈالتا ہے۔ ہم چاروں مقتولین کا سوگ مناتے ہیں، جن میں بنگلہ دیشی نژاد مسلمان پولیس افسر ‘اسلام’ بھی شامل ہیں، جو دوسروں کو بچاتے ہوئے جان بحق ہوئے۔”
دوسری جانب، امریکہ کی سب سے بڑی مسلم حقوق کی تنظیم "کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)” نے بھی ان حملوں کی شدید مذمت کی۔ تنظیم نے کہا:
"ہم ان مسلم مخالف اور فلسطینی مخالف نسل پرستوں کی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے بغیر کسی ثبوت کے خوشی خوشی فائرنگ کے اس واقعے کا الزام مسلمانوں اور فلسطینیوں پر ڈال دیا۔ ہم اس اندھی نفرت کی مذمت کرتے ہیں جو کسی شخص کو ایسی ٹریجڈی کے بعد تعصب اور نسل پرستی پر مبنی ردعمل دینے پر اُکسائے۔”