شیعہ نشین علاقہ عوامیہ پر سعودی فورسز کا خونریز حملہ؛ 4 حملے، 1 گرفتار اور ایک ہی خاندان کے 3 شہید
سعودی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے تسلسل میں سعودی عرب کے مشرقی صوبہ کے شہر عوامیہ میں گذشتہ ہفتہ کے دوران 4 سخت فوجی حملات دیکھنے میں آئے۔ جن میں گرفتاریاں، گھروں کی تاراجی، مکینوں اور میڈیا کو دھمکیاں دی گئیں۔
ایک ایسا حملہ جس نے ایک بار پھر ایک ایسے خاندان کی المناک قسمت کا انکشاف کر دیا جس کے 3 بچوں کو یا تو پھانسی دی جا چکی ہے یا وہ جیل میں ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے قطیف کاؤنٹی کا حصہ شیعہ شہر عوامیہ ایک بار پھر سعودی سکیورٹی فورسز کے پرتشدد چھاپوں کی زد میں آ گیا۔
"ثوار النمر نیٹ ورک” کے ٹیوٹر اکاؤنٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے کے پیر سے جمعرات تک عوامیہ کے مختلف علاقوں بالخصوص الجبل اور محلہ شُکر اللہ میں چار غیر اعلانیہ فوجی حملے ہوئے۔
یہ حملے بکتر بند گاڑیوں اور بھاری فوجی ساز و سامان کا استعمال کرتے ہوئے کئے گئے اور ان کے ساتھ گھروں کی تباہی اور شہریوں کو شدید دھمکیاں دی گئیں۔
شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پہلا حملہ پیر 21 جولائی 2025 کو صبح آل تحیفہ فیملی فارم پر ہوا۔
دوسرا حملہ بدھ 23 جولائی کی صبح شُکر اللہ محلہ میں ہوا۔
تیسرا اور چوتھا حملہ جمعرات 24 جولائی کو الجبل کے علاقے میں چند گھنٹوں کے فاصلے پر کیا گیا اور اس میں دوگنا تشدد تھا۔
یہ اچانک چھاپے اور اچانک حملے، جن میں مذکورہ مقامات پر سیکورٹی یا فوجی دستوں کا پرتشدد داخلہ شامل تھا وہاں عوام کو خاموش کرنے اور میڈیا کی رپورٹنگ کو روکنے کی براہ راست دھمکیاں بھی شامل تھیں۔
ان حملوں میں سے ایک کے دوران نذیر آل آدم نامی نوجوان کو گرفتار کیا۔ جو نظربند لوگوں کی طویل فہرست میں شامل ہے۔
نذیر آل آدم حکومتی جبر کا شکار ہونے والے تین سابقہ افراد منیر آل آدم، ماجد آل آدم اور حسین آل آدم کے بھائی ہیں۔ منیر آل آدم اور ماجد آل آدم بالترتیب سیاسی پھانسیوں اور سابقہ سیکورٹی آپریشنز کے دوران شہید ہو گئے تھے اور حسین آل آدم جو اس وقت جیل میں ہیں اور سخت سزا اور قانونی کم سے کم ٹرائل کے ساتھ مشکل دنوں سے گذر رہے ہیں۔
"ثوار النمر نیٹ ورک” سے بات کرنے والے مقامی کارکنوں کے مطابق نذیر آل آدم کی گرفتاری کے ساتھ تشدد، مارپیٹ اور ان کے گھر کو تباہ کرنا بھی شامل تھا۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ کے مکینوں کو جائے وقوعہ سے تصاویر لینے یا خبریں بھیجنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور سیکورٹی فورسز نے دھمکیوں کے ذریعہ عوامی مقامات کو سختی سے کنٹرول کیا تھا۔
یہ کاروائی ہے جو سرکاری سعودی میڈیا کی خاموشی میں معلومات کو مکمل طور پر چھپانے اور سرکاری ذرائع سے خبروں اور رپورٹس کی اشاعت کو روکنے کے ساتھ ساتھ مکمل نیوز سینسر شپ کے ساتھ انجام دی گئیں، نے انسانی حقوق کے کارکنوں میں تشویش کو جنم دیا ہے۔
واقعات کے ان سلسلے کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شیعہ شہر بدستور سعودی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور بہت سے شیعہ خاندان جیسے کہ آل آدم فیملی خاموش نسل کشی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جو سعودی حکومت کے سائے میں جاری ہے۔