قرآن کو نیزے پر بلند کرنا فوج شام کا فریب... ؛ جنگ صفین کی روایت فتح سے حکمیت تک
صدر اسلام کی ایک عظیم اور پیچیدہ جنگ، جنگ صفین یکم صفر سن 37 ہجری کو مغربی عراق میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان شروع ہوئی۔
فریب، حکمیت اور امت اسلامی کے تلخ انجام پر ختم ہونے والی یہ جنگ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس کے اسباق آج بھی حافظہ تاریخ میں زندہ ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی تیار کردہ رپورٹ پر توجہ دیں۔
قتل عثمان اور امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی وسیع عوامی بیعت کے بعد صرف حاکم شام معاویہ نے امیر المومنین کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور آپ کی بیعت سے انکار کیا۔
اس نے شام میں برسوں سیاسی حیثیت حاصل کی اور عثمان کے قتل کے انتقام کے بہانے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے خلاف لشکر کشی کی۔
جنگ جمل کے بعد امیر المومنین امام علی علیہ السلام کوفہ میں مقیم ہوئے اور معاویہ کو اطاعت کے لئے خطوط بھیجے لیکن معاویہ کا جواب توہین آمیز تھا۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے کوفہ، بصرہ اور اصفہان کے لشکروں کی مدد سے نخیلہ میں اپنی فوج جمع کی اور شام کی سرحد کی جانب بڑھے۔
دریائے فرات کے قریب صفین کے علاقہ میں شامی فوج نے پانی بند کر دیا لیکن مالک اشتر کی بہادری سے پانی کا محاصرہ توڑ دیا گیا اور امیر المومنین علیہ السلام نے شامیوں پر پانی بند نہیں کیا۔
یکم صفر کو جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی شدید طور پر جاری رہی۔
"لیلۃ الہریر” جیسی طویل اور سخت رات کو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی فوج آخری فتح کے قریب تھی، لیکن عمرو العاص کی سازش نے سب کچھ بدل دیا۔
جیسے ہی قرآن نیزوں پر بلند ہوا، عراقی فوج کا ایک حصہ دھوکہ کھا گیا اور جنگ روکنے کا مطالبہ کرنے لگا۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نہ چاہتے ہوئے بھی حکمیت قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔
عمرو عاص اور ابو موسی اشعری بہ عنوان حَکم منتخب ہوئے۔
ابو موسی اشعری نے بڑی نادانی سے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کو خلافت سے برطرف کر دیا اور عمرو عاص نے دھوکہ دیتے ہوئے خلافت کو معاویہ کے حوالے کر دیا۔
نتیجے میں فوج کوفہ کا خاتمہ، خوارج کا ظہور اور اسلامی عدالت کے حصول میں تاخیر؛ جبکہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے افسوس کے ساتھ فرمایا: کل میں حُکم دینے والا تھا اور آج حکم ماننے والا ہوں۔