سیاہ شام میں عید؛ اہل بیت قید میں، جس دن شہدائے کربلا کے مقدس سروں کی آمد پر عید منائی گئی۔
سیاہ شام میں عید؛ اہل بیت قید میں، جس دن شہدائے کربلا کے مقدس سروں کی آمد پر عید منائی گئی۔
کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد اہل بیت رسول شہداء کے مقدس سروں کے ہمراہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے شام میں داخل ہوئے۔
یزیدی حکومت نے نواسہ رسول کی شہادت کے بعد عید منائی، چاہتی تھی کہ واقعات کربلا کو مسخ کر دے لیکن تاریخ نے حقیقت کو محفوظ رکھا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
واقعہ کربلا 10 محرم الحرام 61 ہجری کو ختم ہوا لیکن اہل بیت رسول کی مصیبتیں ابھی شروع ہوئی تھیں۔
یزید بن معاویہ نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور اہل بیت علیہم السلام کی تذلیل کے لئے حکم دیا کہ واقعہ عاشورہ کے قیدیوں کو شہداء کے مقدس سروں کے ساتھ شام بھیج دیا جائے۔
یہ قافلہ امام سجاد علیہ السلام، حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا، اطفال حسینی اور واقعہ کربلا میں زندہ بچ جانے والوں پر مشتمل تھا۔
جناب کفعمی کی کتاب "الآثار الباقیہ” و "مصباح” اور جناب شیخ عباس قمی کی کتاب "نفس المھموم” سمیت متعدد کتب روایات کے مطابق اہل بیت علیہم السلام یکم صفر الاحزان کو شام میں داخل ہوئے۔
اس دن یزید نے دمشق شہر کو بڑے پیمانے پر پروپگنڈے سے سجایا اور لوگوں کو جشن منانے اور خوشی منانے کی دعوت دی۔
روایت میں ہے کہ اہل شام سمجھ رہے تھے کہ شام میں داخل ہونے والے اسیر خارجی یا دشمنان اسلام ہیں۔
اہل شام نے نئے کپڑے پہنے، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دی۔
امام سجاد علیہ السلام نے اس دن کی تلخی کے سلسلہ میں کئی بار فرمایا، اس سوال کے جواب میں کہ اسیری کا سب سے مشکل لمحہ کون سا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: الشام، الشام، الشام۔
اہل بیت علیہم السلام کا قافلہ شام میں داخل ہوا، شام میں مجلس یزید کی چمک دمک کے باوجود حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے صدائے اعتراض اور امام سجاد علیہ السلام کے روشن خطبہ نے حقیقت کو آشکار کر دیا۔
یزید نے واقعہ عاشورہ کو مسخ کرنے اور اہل بیت رسول کے حوصلوں کو پست کرنے کے مقصد سے یہ اقدام کیا۔ جو بالآخر اس کی تاریخی رسوائی میں بدل گیا۔
اگرچہ یزید ظاہراً حق کی آواز کو دبانے اور اہل بیت رسول کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دکھانے میں کامیاب رہا اور امویوں نے اسیروں کی آمد کے دن کو عید میں بدلنے کی کوشش کی لیکن تاریخ نے اس روایت کو الٹا درج نہیں کیا۔
یزید نے طاقت اور دولت سے جو کچھ قائم کیا تھا وہ ایک پرچھائی کی طرح گذر گیا لیکن امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کی صدائیں آج بھی روحوں میں گونجتی ہیں۔
شام کو سجایا گیا، گلیوں میں چراغاں ہوا لیکن اس دن ظلم کی چھت پر جو چراغ جلایا گیا وہ کبھی لوگوں کے دلوں کی حرارت کو نہ چھو سکا۔
میدان کی دوسری جانب ایک کاروان خاموشی سے حقیقت کو لے جا رہا تھا، وہ کاروان آواز میں نہیں بلکہ معنی میں جیتا۔
آج یزید کے تخت و تاج کا کوئی نام و نشان نہیں لیکن امام حسین علیہ السلام کا روضہ زندہ و جاوید ہے۔