یورپ

کوپن ہیگن میں مسجد امام علی (ع) پر حملہ: مذہبی آزادی پر نئی بحث چھڑ گئی

کوپن ہیگن میں مسجد امام علی (ع) پر حملہ: مذہبی آزادی پر نئی بحث چھڑ گئی

ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں مسجد امام علی (علیہ السلام) پر دائیں بازو کی ایک انتہا پسند نوجوان تنظیم "جنریشن آئیڈینٹیٹی” کے حملے کے بعد پولیس نے باضابطہ طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ واقعہ جمعے کی صبح نوربرو کے علاقے میں پیش آیا، جسے مسجد کی انتظامیہ نے "عبادت گاہ کی حرمت اور مسلم کمیونٹی کے حقوق پر کھلا حملہ” قرار دیا ہے۔

مسجد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ "تخریبی اور جارحانہ عمل” ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے اس حق کو نشانہ بنانا ہے کہ وہ امن و سکون سے اپنے مذہبی فرائض انجام دیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مسجد ایک "پرامن مذہبی ادارہ ہے جس کا کسی بیرونی سیاسی ایجنڈے سے کوئی تعلق نہیں”، اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ دیگر عبادت گاہوں کی طرح اسے بھی مساوی قانونی تحفظ دیا جائے۔

دائیں بازو کی اس تنظیم نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز جاری کیں، جن میں تنظیم کے چار ارکان کو پیلے رنگ کی جیکٹس پہنے مسجد کی چھت پر چڑھتے، سرخ دھوئیں والے بم پھینکتے اور ایک بینر لٹکاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس پر لکھا تھا: "اسلامائزیشن بند کرو — اب ہجرت الٹی سمت میں ہو۔” تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک "علامتی شہری نافرمانی” تھی تاکہ معاشرے میں موجود ان عناصر کی طرف توجہ دلائی جا سکے جو ان کے بقول "ڈنمارکی معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتے”۔

کوپن ہیگن پولیس نے اس واقعے کی شکایت موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، تاہم مزید تفصیلات فی الحال جاری نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب، تنظیم کے ترجمان ڈینیئل نورڈینٹوفٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی دس منٹ سے زیادہ نہیں چلی اور اس میں کسی قسم کا مادی نقصان نہیں ہوا۔

"جنریشن آئیڈینٹیٹی” کو یورپ کی سب سے متنازع دائیں بازو کی تحریکوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو مہاجرت اور کثیر الثقافتی معاشروں کی مخالفت پر مبنی ایجنڈا رکھتی ہے۔ یہ تنظیم فرانس میں پہلے ہی پابندی کا شکار ہو چکی ہے جبکہ آسٹریا میں اس کے نشانات پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ انتہا پسند گروہوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم نسل پرستی سے بچنے کے لیے دانستہ طور پر اشتعال انگیز مگر قانونی دائرے میں رہنے والا بیانیہ استعمال کرتی ہے تاکہ قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔

مسجد پر حملے کے بعد ڈنمارک میں مقیم مسلمانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلامی عبادت گاہوں کو بہتر تحفظ فراہم کیا جائے اور ان عناصر کا احتساب کیا جائے جو "علامتی اقدامات” اور "اظہار رائے کی آزادی” کے پردے میں نفرت انگیزی کو ہوا دیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button