امریکہ

میلواکی میں غزہ کا درد بیان کرتی ایک وال پینٹنگ: عراقی نژاد امریکی فنکار نے مظلومیت کو فن کی زبان دی

میلواکی میں غزہ کا درد بیان کرتی ایک وال پینٹنگ: عراقی نژاد امریکی فنکار نے مظلومیت کو فن کی زبان دی

امریکی شہر میلواکی کی سرمئی گلیوں میں ایک جاذبِ نظر وال پینٹنگ اُبھری ہے جو فلسطینیوں کے درد کو اجاگر کرتی ہے اور مظلوموں کی خاموش چیخ بن کر ابھری ہے۔ یہ فن پارہ مسلمان فنکار "ڈیوڈ نجیب کاسر” کی تخلیق ہے، جن کا تعلق عراقی نسل سے ہے، اور جو عالمی خاموشی کے مقابل ایک احتجاجی صدا بن کر سامنے آئے ہیں۔

کاسر، جو 1977 میں شکاگو میں پیدا ہوئے، ایک پناہ گزین والد کے بیٹے ہیں جو صدام حسین کے ظلم سے بچ کر امریکہ آئے تھے، جبکہ ان کی والدہ کا تعلق شام سے ہے۔ انہوں نے گولیوں اور بموں کا جواب قلم اور رنگ سے دیا، اور دیواروں کو وہ آواز بخشی جو ماؤں کی آہیں اور بچوں کے رونے کی ترجمان ہے۔

ان کی تازہ ترین پینٹنگ "بچوں کا اخراج” میلواکی کے "بلیک کیٹ الی” میں بنائی گئی ہے، جو غزہ کے انسانی المیے کی داستان سناتی ہے اور جنگ کے دوران شہریوں پر پڑنے والے ناقابل برداشت بوجھ کو اجاگر کرتی ہے۔

مقامی میڈیا نے کاسر کو "ایک انسانی ضمیر رکھنے والا فنکار” قرار دیا ہے۔ وہ صرف جنگ کو نہیں دکھاتے بلکہ عالمی بے حسی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کی پینٹنگ ایک پیغام دیتی ہے:
"ہم بھی انسان ہیں، اپنے بچوں سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی آپ کرتے ہیں۔”

یہ غزہ کے بارے میں ان کا پہلا فن پارہ نہیں ہے؛ اس سے قبل وہ شامی پناہ گزینوں کے درد پر بھی کام کر چکے ہیں، اور اُن ماؤں کے چہرے بھی تخلیق کر چکے ہیں جنہوں نے اپنے بچے کھو دیے۔ تاہم، ان کے فن کو خاموش کروانے کی کوششیں بھی ہوئیں، جیسے کہ گزشتہ سال ان کی ایک پینٹنگ کو کوڑے دانوں کے پیچھے چھپا دیا گیا، جسے مظلوموں کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا گیا۔

اب جب فلسطینی المیہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے، کاسر دوبارہ میدان میں آئے ہیں۔ انہوں نے میلواکی کی دیواروں کو ایک خاموش مگر طاقتور مزاحمت کا ذریعہ بنایا ہے، جو میڈیا کی دہری پالیسیوں کو بے نقاب کرتی ہے اور عرب چہروں کو اُن کی چھینی گئی انسانیت واپس دلاتی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں عربوں اور مسلمانوں کو شیطانی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، کاسر اعلان کرتے ہیں کہ:
"فن صرف سجاوٹ نہیں، بلکہ شعور کی جنگ میں ایک ہتھیار ہے۔ سچائی کو دبایا جا سکتا ہے، مگر مارا نہیں جا سکتا۔”

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button