چار دہائیوں بعد آیت الله العظمی شیرازی کی بصیرت کی تصدیق: نیتن یاہو نے عالمی رائے عامہ پر میڈیا کے اثر کو تسلیم کر لیا
چار دہائیوں بعد آیت الله العظمی شیرازی کی بصیرت کی تصدیق: نیتن یاہو نے عالمی رائے عامہ پر میڈیا کے اثر کو تسلیم کر لیا
ایک اہم پیش رفت کے طور پر، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ دنیا بھر میں اسرائیل کی منفی شبیہہ کی بنیادی وجہ وہ "میڈیا پروپیگنڈا” ہے جو اسرائیلی قبضے کی پالیسیوں کے خلاف جاری ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی نفرت کی اصل وجہ میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں اور رپورٹس ہیں۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب آیت الله العظمی سید محمد الحسینی الشیرازی کی جانب سے دی گئی اس بصیرت بھری رہنمائی کو تقریباً چالیس سال گزر چکے ہیں، جس میں انہوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں قابض قوتوں کے خلاف پرامن اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا تھا۔ آیت الله العظمی شیرازی نے اس وقت واضح طور پر کہا تھا کہ "دشمن کے جرائم کو بے نقاب کر کے انہیں عالمی رائے عامہ کے سامنے لانا ہی اس کے نسل پرستانہ اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو روکنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔”
1982 میں آیت الله العظمی شیرازی کے ایک وفد نے بیروت کے علاقے "کولا” میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے دفتر کا دورہ کیا تھا، جہاں آیت الله العظمی شیرازی نے زور دے کر کہا تھا کہ محض پتھر پھینکنے سے زیادہ مؤثر کام ایک باشعور اور منظم میڈیا کر سکتا ہے جو قبضے کے خلاف عالمی سطح پر مؤثر بیانیہ قائم کرے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے میڈیا کے اثرات کو تسلیم کرنا، دراصل آیت الله العظمی شیرازی کی اُس دور اندیشی کی عملی تصدیق ہے جس میں انہوں نے پُرامن ذرائع سے عالمی انسانی ضمیر کو مخاطب کر کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی حکمتِ عملی کو سب سے مؤثر قرار دیا تھا۔