طالبان کی جانب سے کابل یونیورسٹی کے درجنوں اساتذہ برطرف، اعلیٰ تعلیم کے زوال کا خدشہ
طالبان کی جانب سے کابل یونیورسٹی کے درجنوں اساتذہ برطرف، اعلیٰ تعلیم کے زوال کا خدشہ
کابل کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے طالبان حکومت نے گزشتہ چند دنوں کے دوران بغیر کسی واضح وجہ کے 23 تدریسی و انتظامی عملے کو برطرف کر دیا، جس پر ملک کے اندر اور باہر سخت غم و غصے اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مبصرین نے اس اقدام کو علمی و فکری صلاحیتوں کے خلاف ایک مسلسل جابرانہ رویہ قرار دیا ہے۔
جامعاتی ذرائع کے مطابق، برطرف کیے گئے افراد میں 10 معروف و قابل اساتذہ اور 13 انتظامی ملازمین شامل ہیں، جنہیں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک فارغ کر دیا گیا، جس سے تعلیمی حلقوں میں شدید مایوسی پھیلی ہے۔
یہ اقدام طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیے جانے والے اُن اقدامات کی کڑی ہے جنہیں "انتظامی تطہیر” کا نام دیا جاتا ہے، جس کا مقصد سابق حکومت سے وابستہ افراد کو تعلیمی و انتظامی اداروں سے نکال کر تعلیمی ماحول کو طالبان کے نظریاتی و سیاسی رجحانات کے مطابق ڈھالنا ہے۔
اس صورت حال کو مزید نازک اس وقت بنایا گیا جب طالبان کی جانب سے مقرر کردہ یونیورسٹی کے سربراہ نے بقیہ اساتذہ کو سخت وارننگ جاری کی کہ آئندہ ترقی صرف اُس "پیداوار” کی بنیاد پر دی جائے گی جو حکومت کے مقاصد کو تقویت دے، نہ کہ علمی تحقیق یا تدریسی کارکردگی کی بنیاد پر۔ اس بیان کو مبصرین نے علمی آزادی کے خلاف ایک واضح اشارہ قرار دیا ہے۔
یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں، کیونکہ اس سے قبل مئی اور جولائی میں صوبہ خوست اور پکتیا میں بھی اسی طرز پر 200 سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور عملے کو برطرف کیا جا چکا ہے، جس سے یہ خدشات تقویت پکڑ رہے ہیں کہ طالبان کی پالیسی تعلیمی اداروں کو علمی دماغوں سے خالی کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ ظالمانہ پالیسیاں، جنہیں طالبان کبھی کبھار 20 فیصد ملازمتوں میں کمی کی حکومتی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو منظم طور پر تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں، اور اس سے قابل افراد کی بڑی تعداد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہے، کیونکہ نہ صرف تعلیمی ماحول مسدود ہو چکا ہے، بلکہ پیشہ ورانہ تحفظ بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔