۲۵ محرم الحرام: یوم شہادت امام سجاد علیہ السلام
۲۵ محرم الحرام، چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔
آپ کے مشہور القابات میں "زین العابدین”، "سید الساجدین”، "سجاد”، "زکی”، "امین” اور "ذوالثفنات” شامل ہیں۔
حضرت علی بن الحسین، امام حسین علیہ السلام کے فرزند اور شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ آپ کی کنیتیں "ابوالحسن” اور "ابومحمد” ہیں۔ مشہور قول کے مطابق، آپ ۵ شعبان ۳۸ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
امام سجاد علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے دورِ خلافت، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانۂ امامت کو درک کیا، اور دیکھا کہ کس طرح معاویہ نے عراق اور دیگر علاقوں میں شیعوں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی۔
آپ اپنے والد بزرگوار امام حسین علیہ السلام اور دیگر اصحاب کے ساتھ کربلا میں موجود تھے، اور عاشورا کے دن اپنے والد، بھائی، چچاؤں اور دیگر شہداء کی شہادت کے گواہ بنے۔
اللہ تعالیٰ کی مصلحت کے تحت، آپ اس دن بیمار تھے تاکہ آپ امامت اور قیادت کی ذمہ داری امام حسین علیہ السلام کے بعد سنبھال سکیں، اور اسی حالت میں قیدیوں کے ساتھ کوفہ اور شام لے جائے گئے۔
اگر امام سجاد علیہ السلام اور آپ کی عظیم بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی بیدارگری نہ ہوتی تو شاید آج تک واقعۂ کربلا اور عاشورا کی یاد زندہ نہ رہتی۔
ان بیدارگریوں میں سے ایک، شام کی مسجد میں یزید کے سامنے امام سجاد کی مشہور خطبہ ہے۔
جب امام نے یزید کے سامنے تقریر کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو یزید نے روکا۔ کچھ لوگوں نے کہا: اسے منبر پر جانے دو، ہم اس کی بات سنیں گے۔
یزید نے کہا: اگر یہ منبر پر چڑھ گیا تو اس وقت تک نہیں اُترے گا جب تک مجھے اور آلِ ابوسفیان کو رسوا نہ کر دے۔
لوگوں نے کہا: یہ نوجوان ایسا کیا کہہ سکتا ہے؟ یزید نے کہا: "یہ اس خاندان سے ہے جسے بچپن ہی سے علم پلایا گیا ہے۔”
عوام کے مسلسل اصرار پر یزید مجبوراً راضی ہوا۔ امام سجاد علیہ السلام منبر پر گئے، اور ایسا عظیم الشان اور بے مثال خطبہ دیا کہ دل ہل گئے اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
دعا اور مناجات، امام سجاد علیہ السلام کا وہ ثقافتی ہتھیار تھا جسے آپ نے واقعۂ کربلا کے بعد بنو امیہ کے ظلم و ستم کے اندھیر دور میں عوام کی ہدایت کے لیے استعمال کیا۔
آپ کو ایسی حکمت عملی اپنانا پڑی جو بنو امیہ اور مروانی ظلم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں، معاویہ، یزید اور ان کے پیروکاروں کی باطل تعلیمات سے عوام کو نجات دلا سکے۔
ایسی حکمت عملی جو دین کے حقائق، سیرتِ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ، اور اہلِ بیت علیہم السلام کے طریقے سے عوام کو آشنا کرے، انقلاب کی بنیاد رکھے اور دشمن کو بہانہ بھی نہ دے۔
"صحیفہ سجادیہ” امام سجاد کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جو فصاحت، بلاغت اور معنوی گہرائی میں بے نظیر ہے، اور اس کا ہر جملہ انسان کو نیا درس دیتا ہے۔
یہ واقعی انسان کو بارگاہِ الٰہی میں مناجات اور دعا کا سلیقہ سکھاتا ہے، اور انسان کے دل و روح کو نور اور صفا عطا کرتا ہے۔
"رسالۂ حقوق” بھی امام سجاد علیہ السلام کی یادگار ہے، جو انسان کی حقیقی حیثیت کے تناظر میں بیان کی گئی ہے۔ یہ ایسی نکات پر مشتمل ہے جو آج کی انسانی حقوق کی دستاویزات میں اس درجے کی گہرائی کے ساتھ شامل نہیں، جیسی نگاہ امام سجاد نے رکھی۔
معروف شاعر "فرزدق” کا وہ مشہور شعر، جس میں امام زین العابدین کی تعریف کی گئی ہے، اس بات کا گواہ ہے کہ کس طرح حج کے ہجوم میں عوام نے امام سجاد کا احترام کیا، جبکہ حکومتی ولی عہد ہشام بن عبدالملک کو نظر انداز کر دیا۔
تاریخی روایات کے مطابق، امام سجاد علیہ السلام کو ولید بن عبدالملک نے زہر دے کر ۲۵ محرم ۹۴ ہجری کو شہید کر دیا۔
آپ کی آخری آرام گاہ جنت البقیع میں ہے، جہاں آپ کے چچا امام حسن مجتبیٰ، فرزند امام محمد باقر اور نواسے امام جعفر صادق علیہم السلام بھی مدفون ہیں۔