افغانستان

ایران اور پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی جبری اجتماعی بے دخلی پر اقوام متحدہ کی وارننگ

ایران و پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی جبری اجتماعی بے دخلی پر اقوام متحدہ کی وارننگ

اقوام متحدہ کے ماہرین نے جمعہ، 18 جولائی کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں ایران اور پاکستان کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی اجتماعی اور جبری بے دخلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس عمل کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سال 2025 کے آغاز سے اب تک ایران اور پاکستان سے 19 لاکھ سے زائد افغان باشندے یا تو خود واپس لوٹے یا انہیں زبردستی افغانستان بھیجا گیا، جن میں سے صرف ایران سے 24 جون کے بعد 4 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدر کیا گیا۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ، ایران میں انسانی حقوق کے نمائندے مائی ساتو، اور دیگر اقوام متحدہ کے نمائندوں نے زور دیا کہ ان بے دخل کیے گئے افراد میں ہزاروں غیر مرافق بچوں سمیت کئی ایسے افراد شامل ہیں جنہیں طالبان کے زیر تسلط ملک میں کوئی حقیقی تحفظ یا سلامتی میسر نہیں۔

ماہرین نے اپنے بیان میں کہا: "افغانستان واپسی کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔ طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد انسانی حقوق کی صورت حال شدید بگڑ چکی ہے، اور واپس بھیجے گئے افراد کو حقیقی خطرات لاحق ہیں، جن میں ظلم و ستم، اذیت، دھمکی اور انتقامی کارروائیاں شامل ہیں۔”

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے بعد جبری بے دخلی کا سلسلہ تیز ہوا، اور ایسے افراد کو بھی ملک بدر کیا گیا جن کے پاس قانونی رہائشی دستاویزات تھیں۔ ایران اور پاکستان میں رائج سیکیورٹی بیانیے نے عوامی سطح پر افغان پناہ گزینوں کے خلاف نفرت اور مخالفت کو ہوا دی۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس عمل کو بین الاقوامی مہاجر قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ "عدمِ اعادہ” (non-refoulement) کے اصول کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس ملک میں واپس نہ بھیجا جائے جہاں اس کی جان یا آزادی کو خطرہ ہو۔

ماہرین نے ان تیسرے ممالک میں معطل کردہ آبادکاری پروگراموں کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا، جو کمزور افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا: "حکومتیں افغانستان میں موجود حقیقی خطرات کو نظرانداز نہ کریں۔ ان حقائق سے چشم پوشی کرنا اخلاقی و قانونی ذمہ داریوں سے انکار کے مترادف ہے۔”

بیان میں خاص طور پر خواتین، خواتین سربراہِ خاندان، بچوں، اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کی حالت پر گہری تشویش ظاہر کی گئی، اور اقوامِ عالم سے اپیل کی گئی کہ وہ انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں کو مالی وسائل مہیا کریں اور وطن واپس لوٹنے والے افغانوں کو مکمل معاونت فراہم کریں۔

اسی ضمن میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، فولکر ترک، نے بھی جبری واپسیوں پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان افغان پناہ گزینوں کو ہرگز واپس نہ بھیجا جائے جنہیں ممکنہ طور پر ظلم، جبری گرفتاری یا تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے۔

فولکر ترک کے اس بیان نے اقوام متحدہ کے ماہرین کی طرف سے جاری کردہ انتباہات کو مزید تقویت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی انسانی و قانونی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button