سعودی عرب میں سیاسی پھانسیاں جاری؛ اہل تشیع کی لاشیں واپس نہیں کی گئیں
سعودی عرب میں سیاسی پھانسیاں جاری؛ اہل تشیع کی لاشیں واپس نہیں کی گئیں
سعودی حکومت نے قطیف سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ شیعہ جوان سید علی العلوی کو پھانسی دے کر ایک بار پھر سیاسی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی لہر کو تیز کر دیا۔
دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات بغیر کسی منصفانہ مقدمہ کے لگائے گئے شیعہ اقلیت کے خلاف جابرانہ پالیسیوں کے تسلسل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
متاثرین کے اہل خانہ کو اب تک اپنے پیاروں کی لاشیں واپس لینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے، اس عمل میں اب تک 200 سے زائد کیسز شامل ہو چکے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
پیر 14 جولائی کو سعودی حکومت نے قطیف سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ شیعہ جوان سید علی العلوی کو پھانسی دے دی۔
دہشت گردی اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے سیاسی الزامات کے ساتھ اس پھانسی نے ایک بار پھر سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان الزامات کو عدالتی اور سیاسی انصاف کی کمی قرار دیا ہے۔ سید علی العلوی ستمبر 2020 سے حراست میں تھے اور ان پر تشدد جاری تھا۔
پھانسی سے پہلے ان کے خاندان کو مطلع نہیں کیا گیا اور ان کی لاش اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس سے قبل چند برسوں میں پھانسی پانے والے شیعوں کی 200 سے زیادہ لاشیں اہل خانہ کو نہیں دی گئی ہیں۔
سعودی حکومت کے مخالف گروہوں نے ان پھانسیوں کو وسیع پیمانے پر شیعوں پر جبر کا حصہ سمجھا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عدالتی نظام حکومتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے صرف ایک پردہ ہے اور یہ سلسلہ عالمی برادری کی مسلسل خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔
قابل غور ہے کہ حالیہ برسوں میں عبدالمجید النمر، ناصر العمر، حسن الفرج، علی المرہون، صالح الحیدر، عبدالکریم المرہون، عبداللہ الغریب جیسی شخصیات کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور دیگر بہت سے شیعوں کو سیاسی مخالفت اور دہشت گردی کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان پھانسیوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے بہت سے متاثرین کو بغیر کسی منصفانہ مقدمے کی رسائی کے اور صرف ان کے دینی عقائد اور سیاسی نظریات کی وجہ سے دبایا گیا ہے۔
مزید برآں لاشوں کے حوالے نہ کرنے کا عمل جو منظم طریقے سے کیا جاتا ہے، سعودی حکومت کی طرف سے خاندانوں کو تکلیف اور لاعلمی میں مبتلا رکھتا ہے اور نفسیاتی دباؤ بڑھانے اور انہیں مزید دبانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بارہا ان کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے پھانسیوں کو فوری طور پر بند کرنے اور لواحقین کو لاشیں واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اب تک سعودی حکومت کی جانب سے کوئی عملی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
سیاسی جبر اور پھانسیوں کی اس لہر نے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں اور مذہبی اقلیتوں پر پہنچنے والے دباؤ کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی برادری بالخصوص اسلامی ممالک کو خاموش رہنے کے بجائے اس تشدد کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہیے۔