اسلامی دنیاخبریں

شام کے صوبہ السویدہ میں جنگ بندی ناکام، اسرائیل کے فضائی حملے، خطے میں کشیدگی میں خطرناک اضافہ

شام کے صوبہ السویدہ میں نازک جنگ بندی کے خاتمے کے بعد دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں، جس کے نتیجے میں خطے میں ایک نئے سنگین بحران نے جنم لے لیا ہے۔

آج صبح سویرے شامی حکومتی فورسز اور دروز ملیشیاؤں کے درمیان شدید جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں، حالانکہ چند گھنٹے قبل ہی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ شامی سرکاری میڈیا کے مطابق اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور کئی ماورائے عدالت قتل کے شکار افراد شامل ہیں۔

السویدہ، جو کہ جنوبی شام کا اکثریتی دروز علاقہ ہے، شدید لڑائی کا مرکز بن گیا ہے۔ شامی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ وہ "غیر قانونی گروپوں” کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اور شہریوں کے انخلا کے لیے محفوظ راہداریوں کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔

ایک بڑی پیش رفت میں، اسرائیل نے تشدد کے جواب میں شام میں متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔ نشانہ بننے والے مقامات میں السویدہ میں شامی فوجی پوزیشنز شامل تھیں، جب کہ ایک غیر معمولی اقدام میں اسرائیل نے دمشق میں شامی وزارتِ دفاع کے مرکزی گیٹ پر بھی حملہ کیا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گالانت نے ان حملوں کو "تکلیف دہ ضربوں” کی شروعات قرار دیا اور شامی حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ جنوبی شام سے اپنی فوجیں واپس بلائے، ورنہ مزید کارروائی کے لیے تیار رہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا اقدام دروز کمیونٹی کے تحفظ اور شمالی سرحد کی سلامتی کے لیے کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر مزید فوج تعینات کر دی ہے، کیونکہ وہاں سے دراندازی کی کوششوں اور بڑھتے ہوئے خطرات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

یہ کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شام کی نئی عبوری حکومت، صدر احمد الشراع کی قیادت میں، اقتدار کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے، جب کہ دروز، بدو اور حکومتی حامی افواج کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہو گئی ہے۔

اس وقت جنوبی شام شدید بے چینی کا شکار ہے۔ السویدہ میں شروع ہونے والا مقامی تنازع اب ایک ایسے بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے سنگین علاقائی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کی نظریں اس صورتحال پر مرکوز ہیں، جہاں سفارتکاری کی امیدیں دھاگے سے لٹکی ہوئی ہیں اور ایک وسیع تر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button