یمن میں 1 کروڑ 70 لاکھ افراد بھوک کا شکار، بچوں کی زندگیاں شدید خطرے میں
یمن میں 1 کروڑ 70 لاکھ افراد بھوک کا شکار، بچوں کی زندگیاں شدید خطرے میں
اقوامِ متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ، ٹام فلیچر نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں 1 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہیں، جن میں 5 سال سے کم عمر کے 10 لاکھ سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد کو ایسی غذائی قلت کا سامنا ہے جو ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی، جہاں انہوں نے بتایا کہ دنیا کے سب سے غریب عرب ملک، یمن میں خوراک کا بحران 2023 کے آخر سے تیزی سے بڑھا ہے، اور اس کی بنیادی وجوہات جاری خانہ جنگی اور معاشی تباہی ہیں۔
فلیچر کے مطابق، ستمبر 2025 تک یہ تعداد بڑھ کر 1 کروڑ 80 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے، جبکہ 2026 کے آغاز میں 12 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کو مستقل نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
خوراک کی عالمی سطح پر مستند نگرانی کرنے والے ادارے "آئی پی سی” (IPC) کے مطابق، اس وقت یمن میں 1 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد غذائی عدم تحفظ کی بدترین تین مراحل — بحران، ایمرجنسی، اور قحط — میں زندگی گزار رہے ہیں۔
فلیچر نے کہا کہ اس وقت یمن میں بھوک اور محرومی کی جو سطح دیکھی جا رہی ہے، وہ 2022 میں اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی سے قبل کی صورتحال سے بھی بدتر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انسانی امداد کے لیے فنڈنگ میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ضرورت مندوں کو دی جانے والی خوراک میں کٹوتی کرنا پڑی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، یمن کے لیے 2025 کی انسانی امدادی منصوبہ بندی میں 2.5 ارب ڈالر درکار ہیں، مگر مئی کے وسط تک صرف 222 ملین ڈالر موصول ہوئے ہیں — جو کہ کل مطلوبہ رقم کا صرف 9 فیصد ہے۔