افغانستان: طالبان کا سرکاری دفاتر میں فارسی زبان پر پابندی کا حکم، عوامی حلقوں میں شدید ردعمل
افغانستان: طالبان کا سرکاری دفاتر میں فارسی زبان پر پابندی کا حکم، عوامی حلقوں میں شدید ردعمل
طالبان کی وزارت داخلہ نے ایک نیا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے بیشتر سرکاری اداروں میں فارسی (دری) زبان کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے، جسے 11 جولائی 2025 بروز ہفتہ سے 48 گھنٹوں کے اندر نافذ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس فیصلے نے ملک بھر میں تشویش اور غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
وزارت داخلہ کے معائنہ شعبے کے ڈائریکٹر مفتی محمد سالم ابرات کے دستخط شدہ سرکاری دستاویز کے مطابق، تمام سرکاری رپورٹس اور خط و کتابت صرف پشتو زبان میں کی جائے گی، تاہم بدخشان، بامیان اور پنجشیر صوبوں — جو فارسی بولنے والے علاقوں میں شمار ہوتے ہیں — کو اس حکم سے عارضی استثناء دیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ افغانستان کے 2003 کے آئین کی کھلی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے، جس میں پشتو اور فارسی دونوں کو ملک کی سرکاری زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے، اور ان کے سرکاری استعمال کو تسلیم کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق، اس حکم نامے کے بعد اُن فارسی بولنے والے سرکاری ملازمین میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے جن کی مادری زبان فارسی ہے، اور وہ ممکنہ طور پر ملازمت سے برطرفی یا دیگر انتظامی سزاؤں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور ثقافتی حلقوں نے اس اقدام کو افغانستان کی قومی شناخت میں موجود ایک اہم لسانی و ثقافتی عنصر کو منظم انداز میں ختم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتو کو واحد سرکاری زبان بنانا نسلی و لسانی تناؤ کو ہوا دے گا اور ملک میں باہمی رواداری و تنوع کی بنیادوں کو کمزور کرے گا۔
افغان دانشوروں اور سوشل میڈیا صارفین نے طالبان سے اس حکم کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی لسانی تنوع قومی دولت ہے، نہ کہ خطرہ۔ ان کا انتباہ ہے کہ کسی بھی قسم کا لسانی امتیاز، معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کر سکتا ہے اور داخلی کشیدگیوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔