عدل کے لئے سر دینا عظمت ہے: علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی
عدل کے لئے سر دینا عظمت ہے: علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی
حجت الاسلام و المسلمین سید شہنشاہ حسین نقوی نے کہا ہے کہ کربلا میں جو کچھ ہوا وہ درحقیقت عدل اور ظلم کے درمیان فیصلہ تھا، ایک طرف تلواریں تھیں، نیزے تھے، لشکر تھے، حکومت تھی اور دوسری طرف حق، صبر، صداقت اور عدل کا مظہر امام حسینؑ تھے۔
نشتر پارک میں مرکزی عشرہ محرم الحرام کی مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کربلا نے تاریخ کو سکھایا کہ عدل تنہا بھی ہو تو غالب ہے اور ظلم لشکروں سمیت بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے، جب حضرت علی اکبرؑ نے اذنِ جہاد لیا تو گویا عدل نے ظلم کے خلاف جہاد کیا، عدالت، حق کو ظاہر کرنے اور حقدار کو اس کا حق دلوانے کا نام ہے، امام زین العابدینؑ نے دربارِ یزید میں کھڑے ہو کر عدل کو دوبارہ زبان عطا کی اور فرمایا ہم وہ ہیں جن پر ظلم ہوا، ہم وہ ہیں جن کے حقوق غصب کیے گئے، اس ایک جملے میں صدیوں کا عدل چھپا ہوا تھا جو آج بھی ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے۔
علامہ شہنشاہ نقوی نے مزید کہا کہ امام حسینؑ کا پیغام ہر دور کے لیے ہے، خاص طور پر اس دور کیلئے جہاں عدل ناپید اور ظلم معتبر ہو گیا ہے، آج اگر ہم خود کو حسینی کہنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں ہر میدان میں عدل کا علمبردار بننا ہوگا، گھر میں، دفتر میں، سیاست میں، معیشت میں، حتیٰ کہ اپنے نفس کے ساتھ بھی عدل کرنا ہوگا، عدل صرف حکومت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
امام حسینؑ نے دنیا کو سکھایا کہ عدل کے لیے سر دینا عظمت ہے اور ظلم سے مفاہمت کرنا ذلت ہے، وہ شہید ہوگئے مگر عدل کو حیات دے گئے، ان کا لہو آج بھی عدل کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے، کربلا کو چودہ سو سال گذر گئے لیکن عدل کی فریاد اب بھی جاری ہے، اب ہر دور کا انسان خود سے پوچھے کیا میں عدل کے ساتھ ہوں یا ظلم کے ساتھ؟ کیونکہ امام حسینؑ نے صرف یزید کو بے نقاب نہیں کیا بلکہ ہر زمانے کے باطل کو پہچاننے کا شعور دے دیا۔