سعودی عرب

سعودی عرب میں افریقی مہاجرین کی سزائے موت پر عالمی سطح پر شدید تنقید

سعودی عرب میں افریقی مہاجرین کی سزائے موت پر عالمی سطح پر شدید تنقید

سعودی عرب میں افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں، جن میں ایتھوپیا اور صومالیہ کے شہری شامل ہیں، کو سزائے موت دینے کی نئی لہر نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ ان سزاؤں میں عدالتی تحفظات اور منصفانہ ٹرائل کی شدید کمی ہے۔

یمن کی سرحد کے قریب واقع نجران جیل سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، تقریباً 50 افریقی قیدیوں کو اطلاع دی گئی ہے کہ ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کا وقت قریب آ چکا ہے۔ ان قیدیوں پر منشیات کی اسمگلنگ جیسے الزامات ہیں، جو سعودی عرب میں سزائے موت کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایک قیدی نے بتایا:
"ہمیں کہا گیا کہ ایک دوسرے کو الوداع کہہ دو، اور بتایا گیا کہ عیدالاضحیٰ کے بعد سزاؤں پر عمل شروع ہو جائے گا، اور اب واقعی عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔”

انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق، مئی 2025 کے مہینے میں کم از کم 6 افراد کو سزائے موت دی گئی، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جنوری سے اپریل 2025 کے درمیان صرف منشیات کے مقدمات میں سعودی حکام نے 52 سزائیں نافذ کیں۔

یورپی سعودی انسانی حقوق تنظیم سے وابستہ محقّقہ دعاء دہینی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
"سعودی عرب نے حالیہ مہینوں میں سزائے موت کا دائرہ بڑھا کر بھنگ (حشیش) کی ملکیت جیسے جرائم تک وسیع کر دیا ہے، جو کہ اس کی عدالتی پالیسی میں ایک خطرناک تبدیلی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ سال کے آغاز سے اب تک سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور ان کے مقدمات میں شفاف عدالتی کارروائیوں کا فقدان نمایاں ہے۔

سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق صرف 2024 میں 300 سے زائد افراد کو سزائے موت دی گئی۔
عالمی سطح پر متعدد ادارے بار بار مطالبہ کر چکے ہیں کہ سعودی عرب ان سزاؤں کو روک دے، خاص طور پر ان معاملات میں جہاں قیدی مہاجرین ہوں، اور ان کی گرفتاری، مقدمہ اور سزا کے مراحل غیر شفاف اور مشکوک ہوں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button