فرانس میں یورپی انسٹی ٹیوٹ آف ہیومین سائنسز بندش کے خطرے سے دوچار، مالی اثاثے منجمد ہونے پر مسلمانوں میں تشویش
فرانس میں یورپی انسٹی ٹیوٹ آف ہیومین سائنسز بندش کے خطرے سے دوچار، مالی اثاثے منجمد ہونے پر مسلمانوں میں تشویش
یورپ میں مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم تعلیمی ادارہ "یورپی انسٹی ٹیوٹ آف ہیومین سائنسز” (European Institute of Human Sciences) فرانس میں بندش کے خطرے سے دوچار ہے، کیونکہ فرانسیسی حکومت نے اس کے مالی اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ حکام نے ادارے کی مالی معاونت اور روابط پر شکوک کا اظہار کیا ہے، مگر اب تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
ادارے کی انتظامیہ نے ان اقدامات کو ایک غیر منصفانہ مہم قرار دیا ہے جو یورپ میں اسلامی اعتدال پسند تعلیمی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ ادارہ 1990 کی دہائی میں قائم ہوا اور یہ یورپ میں اسلامی علوم اور عربی زبان کی تعلیم دینے والا سب سے بڑا تعلیمی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں طلبہ، اساتذہ اور محققین اس ادارے سے وابستہ ہیں، اور اسے اسلامی اقدار اور فرانسیسی جمہوری اصولوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت حاصل ہے۔
اپنے ایک حالیہ بیان میں ادارے نے خبردار کیا کہ اگر اس ادارے کو بند کیا گیا یا اس پر مزید دباؤ ڈالا گیا، تو اس سے ایک فکری خلا پیدا ہوگا جس کا فائدہ شدت پسند اور غیر ذمہ دار عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ ادارے نے کہا کہ "منظم تعلیم کے دروازے بند کرنا، انتہاپسندی کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔”
انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی متون کا تنقیدی اور سائنسی تجزیہ سکھاتا ہے تاکہ طلبہ میں اعتدال، کھلا ذہن اور ذمہ دار دینی شعور پیدا ہو۔ اس نے "میثاقِ اسلام فرانس” پر دستخط کرنے والے اولین اداروں میں سے ہونے کا بھی حوالہ دیا، جس سے اس کے ریاستی اصولوں کے احترام کا اظہار ہوتا ہے۔
باوجود اس کے، ادارہ کہتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس پر بے مثال دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جن میں ایسی مالی تحقیقات شامل ہیں جن کے نتائج ابھی تک ظاہر نہیں کیے گئے۔ ان اقدامات کو کئی مبصرین سیاسی حملہ قرار دے رہے ہیں نہ کہ قانونی کارروائی۔
تاحال اس ادارے کی باقاعدہ بندش کا اعلان نہیں ہوا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب قانونی دائرہ کار سے نکل کر فرانس میں اسلام کے کردار کے بڑے سوال میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مسلم حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر ایسے اعتدال پسند اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا تو اس سے ریاست اور مسلم اقلیتوں کے درمیان اعتماد کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا، حالانکہ اس وقت ضرورت شدت پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ہے، نہ کہ اُن اداروں کو دبانے کی جو انتہاپسندی کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔