سعودی عرب نے القصیم سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کو سزائے موت دے دی، عدالتی شفافیت پر خدشات برقرار
سعودی عرب نے القصیم سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کو سزائے موت دے دی، عدالتی شفافیت پر خدشات برقرار
سعودی حکام نے منگل کے روز دو سعودی شہریوں، معجل بن ابراہیم الفوزان اور سلیمان بن ابراہیم الفوزان کو سزائے موت دے دی۔ وزارت داخلہ نے ان پر "دہشت گردی کے جرائم” کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کارروائی نے ایک بار پھر مملکت میں عدالتی انصاف کے معیار پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
وزارت داخلہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق، دونوں بھائیوں پر ایک "دہشت گرد سیل” سے تعلق رکھنے کا الزام تھا، جس نے ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان پر گاڑیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے، خودکش حملے کی تیاری، ایک دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی بیعت، دہشت گردی کی مالی معاونت، حامیوں کو چھپانے اور داخلی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے اسلحہ رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی گئی، اور عدالت نے تعزیری سزائے موت سنائی، جسے بعد ازاں منطقہ القصیم میں نافذ کر دیا گیا۔
یہ سزائے موت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب سعودی عرب میں پھانسیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی عدالتی نظام پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور شفاف ٹرائل کی ضمانت دینے اور دہشت گردی کے الزامات کو سیاسی یا مذہبی بنیادوں پر استعمال کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (منظّمہ العفو الدولیة) نے اپنی سابقہ رپورٹوں میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عدالتیں اکثر ایسے اعترافات پر انحصار کرتی ہیں جنہیں مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، اور کئی مقدمات بین الاقوامی انصاف کے بنیادی معیار سے محروم ہوتے ہیں، خاص طور پر ایسے کیسز جن میں انسانی حقوق کے کارکنوں، مخالفین یا مذہبی اقلیتوں کے افراد پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔