آبنائے ہرمز، جو کہ دنیا کے ایک چوتھائی تیل کا گذر گاہ ہے اور خلیج فارس سے توانائی کی برآمدات کا واحد سمندری راستہ ہے، ایک بار پھر جغرافیائی سیاسی ہلچل میں واپس آ گیا ہے۔
علاقائی کشیدگی میں اضافے کے ساتھ، ایران کی جانب سے اس اہم آبی گذرگاہ کو بند کرنے کے امکان نے عالمی توانائی کی سلامتی کے بارے میں بڑے پیمانے پر خدشات کو جنم دیا ہے۔
خطے میں سیاسی اور فوجی کشیدگی میں اضافے کے بعد ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے منصوبے پر غور کرنے کے لیے ابتدائی منظوری دے دی ہے۔ ایک ایسا اقدام جسے بالآخر سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے منظور کرلیا، جو توانائی کی منڈی میں عالمی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔
آبنائے ہرمز، خلیج فارس اور آزاد پانیوں کے درمیان واحد آبی گذرگاہ ہے، جو عالمی تیل اور گیس کی تقریباً بیس فیصد برآمدات کا راستہ ہے۔یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں اوسطاً 20.9 ملین بیرل یومیہ خام تیل اس راستے سے لے جایا گیا ہے۔ اسی لئے اس حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ تیل کی قیمتوں اور عالمی اقتصادی استحکام پر براہ راست اثر ڈالے گی۔
جوان جرنلسٹس کلب سمیت سرکاری ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے پارلیمنٹ کے رکن اور ایک فوجی شخصیت اسماعیل کوثری کے حوالے سے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو آبنائے کو بند کر دیا جائے گا۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی استنبول میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ "تمام آپشنز میز پر ہیں” اور ایران کی مسلح افواج "مکمل الرٹ” پر ہیں۔
اسی دوران تسنیم خبر رساں ادارے نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اس کارروائی کے لیے ابھی کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ایرانی پارلیمنٹ جوہری عدم وسعت کے معاہدے (NPT) سے دستبرداری کے امکان پر بھی غور کر رہی ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔آبنائے ہرمز ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے اور اپنے تنگ ترین مقام پر اس کی چوڑائی صرف 39 کلومیٹر ہے۔
ایرانی جزائر قشم، ہنگام، ہرمز اور لارک اس درہ سے ملحق ہیں۔ جنہوں نے ایران کی فوجی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔اگر اس راستے کو بند کر دیا گیا تو جاپان، چین، بھارت اور یورپی یونین جیسے ممالک کو توانائی کی قلت اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسا واقعہ جو عالمی معیشت کو مہنگے اور غیر مستحکم مرحلے میں دھکیل دے گا۔