برطانیہ میں برقع پر پابندی کی تجویز نے سماجی تقسیم کے خدشات کو جنم دیا
برطانیہ میں برقع پر پابندی کی تجویز نے سماجی تقسیم کے خدشات کو جنم دیا
برطانیہ میں عوامی مقامات پر نقاب یا برقع پر پابندی کے مطالبے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایسی تجاویز معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا سکتی ہیں۔
یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب ایک نئی منتخب ہونے والی دائیں بازو کی جماعت کی رکن پارلیمنٹ نے اپنی پہلی تقریر میں برقع پر پابندی کی حمایت کی، حالانکہ ملک کو اس وقت مہنگائی، صحت اور جرائم جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف سیاسی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود تقریباً 40 لاکھ مسلمانوں میں سے بہت ہی کم خواتین نقاب یا برقع پہنتی ہیں، اور وہ بھی اپنی مرضی یا مذہبی عقیدے کی بنیاد پر۔ سماجی ماہرین کے مطابق نقاب کو سیکیورٹی یا معاشرتی انضمام سے جوڑنا بے بنیاد ہے اور یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
موجودہ سیکیورٹی قوانین پہلے ہی شناخت کی جانچ کی اجازت دیتے ہیں، اس لیے مکمل پابندی نہ صرف غیر ضروری بلکہ امتیازی سلوک بھی ہے۔ خواتین کے فلاحی ادارے خبردار کرتے ہیں کہ ایسے اقدامات مسلم خواتین کو مزید الگ تھلگ کر سکتے ہیں اور معاشرے میں تفریق بڑھا سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے متنازع اقدامات کے بجائے لوگوں کے مشترکہ مسائل پر توجہ دی جانی چاہیے، تاکہ برطانیہ میں موجود رواداری اور مختلف ثقافتوں کے احترام کی روایت برقرار رہے۔